امریکہ بہادر کی پالیسیاں اور آزاد بلوچ کا رام رام
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک سیاسی کارکن ہونے کے ناطے بلوچ و بلوچستان پر مبنی جونسا معاملہ ہو، اس پر نظر رکھنا، اسے پرکھنا اپنے بساط کے مطابق اپنا رائے پیش کرنا، میں اپنا سیاسی ذمہ داری سمجھتا ہوں، بلوچ تحریک آزادی کے شروع دن سے لیکر ہنوز آپسی اختلافات کو لیکر لیڈرشپ کے سطح پر بداعتمادی، Lack of Trust بدعنوانی اور کبھی کبھار خود پرستی کے عالم میں تحریک و تحریکی معاملات کو سبوتاژ کرنے کا عمل موجود ہے۔ لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ لفاظیت کو اپنا شعار بنا کر صرف شور کرنا اور عمل سے کوسوں دور رہنا خود اس بات کا غماز ٹہرتا ہے کہ کون کس جانب محوِ سفر ہے اور پس پردہ اُن قوتوں کے عزائم کیا ہیں.
امریکہ بہاد کی طرف سے بلوچ قومی مزاحمتی تنظیم کو عالمی دہشت گردی کے صف میں ڈالنے کے بعد اس امر سے ہر ذی شعور واقف ہے کہ اس کے پیچھے امریکہ بہادر کے عزائم کیا ہیں اور وہ اس خطے میں کیا چاہتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ بہادر امریکہ کی پچھلی تاریخ از خود violence سے بھری پڑی ہے.اسی تناظر
استاد اسلم بلوچ نے اپنی شہادت سے چند روز قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ
“لوگ کیا سمجھتے ہیں اس سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو کیا سمجھا سکتے ہیں ہمارے اہداف اور مقاصد جائز اور برحق ہیں ۔طریقہ کار سے قطع نظر دنیا میں اہداف اور مقاصد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہاں دہشت گردی کی تعریف اپنے اپنے مفادات کے تحت کی جاتی ہے۔ اگر اس حوالے سے ہم دیکھنا شروع کریں تو ہماری جدوجہد کسی کی بھی تعریف پر پورا نہیں اترے گی۔ حکمت عملی اور طریقہ کار کا تعلق ہمیشہ حالات کے تحت کی جاتی ہے پاکستان اور چائنا بلوچستان میں جو اقدامات اٌٹھا رہے ہیں کیا وہ برحق ہیں اور جو حالات انہوں نے بنا رکھیں ہیں ان میں کیا کیا جاسکتا ہے؟ ہم اپنے قومی مفادات اور اپنے دفاعی تقاضوں کے تحت فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر یہ دیکھنے بیٹھ جائیں کہ لوگ کیا سمجھتے اور کہتے ہیں تو شاہد پھر ہمارے لئے ان حالات میں بچانے کےلئے کچھ بھی نہ رہے”
یقیناً اس کے باوجود آج “آزاد بلوچ” کا بیان جب نظر سے گذرا اس میں منطق دلیل اور عالمی سیاست سمیت پاکستان و چائینا کے جبر کو محسوس کرکے ان پر کاری ضربیں لگانے سے زیادہ شاہ بہادر کے دربار میں دُھائیاں دے کر رام رام نظر آرہا تھا گو کہ جب بی ایل اے کے اندر اختلافات کو بہانہ بنا کر جناب آزاد بلوچ از خود اپنا عمل و شعار دکھاتے بلکہ الٹا وہ ہنوز دکھائی نہیں دیتے.ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس ناطے کہ میں بھی کسی طرح اس تحریکِ آزادی کا حصہ ہوں آزاد بلوچ اور اس پردے میں چھپے اس قوت سے چند سوال کروں.
آزاد بلوچ کہتے ہیں کہ “2دسمبر 2017 کو ہائی کمان نے تنظیمی پالیسی اور فیصلوں کو بلوچ قوم کے سامنے رکھا اور تنظیم کے خلاف سازش کرنے پر استاد شہید اسلم بلوچ اور بشیرزیب بلوچ کو معطل کیا تھا اور تنظیم کے واحد ترجمان آزاد بلوچ کو نامزد کرکے جیہند و میرک کا خاتمہ کیا گیا………….” اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر “آزاد بلوچ” بی ایل اے کی حقیقی اور مضبوط ترجمان ہیں تو کیونکر آج بی ایل اے آزاد بلوچ منظر عام و میدان سے غائب ہیں؟ (بیانات و لفاظیت سے قطع نظر ) کیونکر استاد اسلم و بشیر زیب کو تنظیم سے سازش کے الزام میں فارغ کرنے کے باوجود آج تک تنظیمی اکثریت استاد و بشیر زیب کے پاس ہے۔
ایک اور جگہ “آزاد بلوچ”اس بات پر بضد ہیں کہ کیونکہ استاد اسلم شہید نے “براس” جیسا اتحاد بنایا جبکہ اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ مسلح محاذ پر براس کے معرض وجود میں آنے کے بعد بلوچ قوم کے اندر ایک نئی امید پیدا ہوچکی ہے کہ بلوچستان میں برسر پیکار بلوچ سرمچار اتحاد و اتفاق اور مشترکہ کاروائیوں پر یقین رکھتے ہیں(کمزوری و خامیوں سے قطع نظر) اب جبکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آزاد بلوچ اس حد تک تنظیمی ڈسپلن نظم و ضبط چیک اینڈ بیلنس جیسے اصطلاحات کو جواز بنا کر استاد اسلم شہید و بشیر زیب کو باقاعدہ مجرم قرار دے رہے ہیں، کیا وہ خود اگر وہ واقعی میدان میں اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں اپنے آپ کو قومی عدالت میں پیش کرکے اپنا احتساب کرانا چاہتا ہے؟ کیونکہ “اس سے صاف ظاہر ہے کہ انتشاری ماحول کو پروان چڑھا رہا ہے؟
مصدقہ زرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جناب آزاد بلوچ کی بلوچ لبریشن آرمی کے نام پر مالی بدعنوانی کا جب تنظیم کو علم ہوا تو 2002 سے لیکر 2017 تک کا حساب دینے کا مطالبہ ہوا، تو بجائے انہوں نے حساب دینے کے خود کو تنظیم و تحریک سے بالاتر سمجھ کر جواب دہی سے انکار کرکے استاد اسلم بلوچ و بشیر زیب بلوچ پہ الزام تراشی کا سلسلہ شروع کیا.اور اب حالیہ تحریکی فیز میں تحریک کے خلاف تقسیم و تحلیل کے منصوبے پر کون گامزن ہے یہ واضع نظر آرہا ہے.
ایک اور جگہ “آزاد بلوچ” رقم طراز ہیں کہ گوادر، دالبندین و کراچی سمیت چینی استعماریت کے خلاف بلوچ فدائین کی کاروائیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تو یقیناً وہ کاروائیاں آزاد بلوچ نے نہیں بلکہ جیند بلوچ کی سربراہی میں رونما ہوئے تھے اور اس کے بعد ریاست پاکستان سمیت چائینا کا کریک ڈاؤن صاف نظر آرہا تھا اور یہ بیانیہ کہ استاد اسلم شہید سمیت کچھ قوتیں بلوچ تحریک کو ایران کا پروکسی بنانا چاہتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آزاد بلوچ کا یہ بیانیہ از خود پاکستان و چائینا کے موقف کی ترجمانی نہیں کررہا؟
اس کے علاوہ بہت سے ایسے محرکات ہیں جن سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میدانِ عمل میں کس کا کردار بالا ہے اور کون تحریکی لوازمات کو مدِنظر رکھ کر دشمن کے خلاف حالات کی سنگینی سمیت خطے میں رونما ہونے والی عالمی مفادات کے پیش نظر اپنی پالیسیاں بنا کر اپنا وجود برقرار رکھ رہے ہیں. کہتے ہیں کہ ماضی کو سامنے رکھ کر مستقبل کی پالیسیاں بنانا اصل سیاسی عمل ہے لیکن متذلل سوچ کے مالک “آزاد بلوچ”از خود کنفیوز ہوکر بلوچ معاشرے میں تقسیم در تقسیم اور آبِ سراب کے پیچھے دوڑیں لگا کر بہ یک جنبش افسانوی سمندر میں غوطہ زن ہوکر خواب بُن رہا ہے کیونکہ میدانِ کارساز میں عمل زندہ رہتا ہے نا کہ لفاظیت.
آخر میں ایک سوال بلوچ رہنماء حیربیار مری سے کہ چلو ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے نقطہ نظر سے کہ نواب خیر بخش مری مرحوم خراب ، مہران مری کرپٹ، نواب براھمدگ ناقابلِ تسلیم(اس بات سے قطع نظر کہ جب اپنی کشتی ڈوب رہا ہو تو اتحاد ممکن) ،ڈاکٹر اللہ نظر پروکسی، استاد اسلم و بشیرزیب آئین و منشور سے باغی و معطل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب سوال یہ ہے اس دورانیہ میں آپ نے کیا کیا؟ قومی لیڈر و قومی ادارے کا دعوے دار رہنماء کیا ایک جگہ محدود رہتا ہے یا متحرک؟ چلو یہ بھی مان لیتے ہیں آپ کی مجبوریاں آڑے آرہی ہیں تو کیا ضروری نہیں جس جگہ آپ قیام پذیر ہیں وہاں ایک مضبوط قیادت کی شکل میں ابھریں؟ قومی ادارے، قومی میڈیا، اور قوم کو یکجا کرنے کا عمل کس طرح پیدا کیئے جاسکتے ہیں؟ میں آج بھی اس سوال کے جواب کا پیاسہ ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔