اب کیا ہوگا؟ – کوہ روش بلوچ

452

اب کیا ہوگا؟

تحریر: کوہ روش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دراصل ہم کنفیوز لوگ ہیں ہر وقت صرف یہی سوچتے رہتے ہیں اب کیا ہوگا؟ یہ ہوا اب یہ ہوگا نہیں، اب ایسا نہیں، ایسا ہوگا، پھر جاکر یہ کہتے ہیں نہیں نہیں یہ سب تو نہیں ہوا ….اب کیا ہوگا؟ اصل وجہ یہی ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے چیزوں کو شروع کرتے ہیں… اور ایک آگے ہوتا جو جہاں جاتا ہے ہم سر نیچے کرکے اس کے پیچھے پیچھے چلے جاتے رہتے ہیں.

جہاں تک تاریخی اعتبار سے سوچا جائے اور دیکھا جائے ہم اس طرح کے بد قسمت انسانوں میں سے ہیں کہ ہمیں پوری تاریخ میں صرف ایک لیڈر نصیب ہوا ہے اور پچھلے دو سو سالوں سے ہم اسی لیڈر کے بنائے ہوئے مٹھائیوں کو کھا رہے ہیں تاریخ کو ایک ایک کرکے دیکھیں، آپ کو تاریخ میں بلوچوں میں صرف نوری نصیر خان میسر ہوگا جو ایک لیڈر تھا باقی کوئی بھی نہیں، جذباتی بنیاد پہ ہم تو کئی لوگوں کو لیڈر کے لسٹ میں شامل کرتے ہیں مگر ابھی ان میں کسی نے بھی وہ کام نہیں کرکے دیکھا جو ایک لیڈر کو کرلینا چاہیے۔

ویسے عطاء اللہ مینگل ، خیربخش مری ،نواب اکبر خان بگٹی ،غوث بخش بزنجو سب آج کسی نا کسی کے لیڈر ہیں مگر جو ایک لیڈر کو کرلینا چاہیے تھا اِن میں سے کسی نے نہیں کیا۔ تو کیا یہ لوگ لیڈر کے زمرے میں آسکتے ہیں ؟ تو جواب صاف یہی آتا ہے، نہیں بلکل نہیں۔

اُس زمانے میں وہ صرف اسی بات کو سوچ رہے تھے اب کیا ہوگا اور آج ہم۔ نہ ہی کل کو کچھ ہوا نہ ہی آج کچھ ہورہا ہے 1971میں پاکستان قبر تک جا پہنچتا ہے، گرتی ہوئی دیوار کو صرف ایک دکھے کی ضرورت تھی اور ہمارے لوگ یہی سوچ رہے تھے اب کیا ہوگا اور کچھ بھی نہیں ہوا۔

اس کے بعدچلو خیر سوشل ازم اس خطے میں اُس وقت اپنی قدمیں جمانے میں کامیاب ہورہا تھا اور ہم یہی سوچ رہے تھے سوویت یونین افغانستان تک آپہنچ چکا اب ہم آزاد ہونگے اور کمیونسٹ ریاست کا مالک ہونگے اور کمیونزم کو سمجھے بغیر ہم نے تشریح کی اور مذہب اور خدا کو گالیاں دینا شروع کیا، کمیونسٹ ریاست وجود میں تو نہیں آیا ہاں مگر ہم اپنے لوگ میں کمیونزم کے بارے اس طرح کے کنفیوژ پیدا کرگئے جو اگلے دوسو سالوں تک کمیونزم سے نفرت کرتے رہینگے اور سوویت اس وقت بلوچستان میں بھی نہیں آیا اور ہم کمیونسٹ ریاست کے مالک بھی نہیں ہوئے اور پتہ نہیں سویت یونین خود کہاں گیا پھر ہم یہ سوچنے پہ مجبور ہوئے اب کیا ہوگا ؟

اللہ کا شکر ہے کہ کئی دہائیوں بعد بلوچوں کو ہوش آیا اور جدوجہد شروع کی اور جنگ، سیاست ،سائنسی طریقہ ، ڈپلومیٹک طریقہ خبر نہیں اور کیا کیا ہم بول رہے تھے مگر ان تمام چیزوں کے باوجود ہم دشمن کے نفسیات سے ناواقف تھے اور اس سے پہلے کہ ہم دشمن پہ حملے کرتے دشمن نے ہمارے کمر پہ حملہ کیا اور کمر ٹوٹتے ٹوٹتے بچ گیا اور ہم حیرانی کے حالت میں صرف یہی بول پڑے اب کیا ہوگا ؟

جنگ چل رہا تھا ہم دشمن کے آمنے سامنے تھے گولیوں کی آوازوں سے پورا بلوچستان گونج رہا تھا اور ہم خوش تھے کہ ہم لڑ رہے ہیں اور دشمن بھی تیاری کے ساتھ ہمارے ساتھ لڑ رہا ہے۔ شروع شروع میں ہم نے تو فری زون بھی بنائے اور علاقے ہمارے کنٹرول میں تھے اور خوشی سے ناچ رہے تھے کہ ہم نے دشمن کو شکست دی ہے اور اس بزدل دشمن کی اتنی اوقات ہم لوگوں کے ساتھ مقابلہ کرے پھر ہوا ایسا ہمیں انہی علاقوں سے بےدخل کرنے میں اس نے زیادہ وقت بھی نہیں لیا اور ہم پھر حیران ہوئے کہ اب کیا ہوگا؟

دشمن مضبوط ہوتا چلاگیا ہم کمزور ہوتے گئے پہلے صرف پاکستان تھا پھر چین بھی شامل ہوا بلوچ صفحہ ہستی سے مٹ رہا تھا، جدوجہد پچھلے ادوار کی طرح پھر سے خاموشی کی جانب گامزن تھا اور تمام راستے بلوچوں کے لئے بند تھے اور ایک ہی راستہ بچا تھا مرو اور مارو ایسا ہی ہوا اور نوجوانوں نے ایسا ہی کیا تو جنگ نے اتنی شدت پکڑی کہ پچھلے ستر سالوں میں نہیں پکڑا تھا، ظاہر ہے آپ جنگ میں شدت لاؤگے دشمن بھی اپنے چالوں میں تیزی لائیگی اور ہوا بھی ایسا مشکلات بڑھ رہے ہیں اور بلوچ اب واشنگٹن اور ماسکو جیسے علاقوں میں ڈسکس ہورہے ہیں اور امریکہ نے کالعدم قرار دیا بی ایل اے کو اور ہم منہ کھول کر بیٹھ گئے اور حیران رہ گئے اور بس یہی سوچ رہے ہیں سب ختم ہوگیا اور اب کیا ہوگا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔