کتاب دوست انسان سے ڈر کیوں؟ – اشفاق بلوچ

345

کتاب دوست انسان سے ڈر کیوں؟

تحریر: اشفاق بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں کہ “ایک انسان کا عروج اور زوال دوسرے انسان کے عروج اور زوال سے وابستہ ہوتاہے“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب ایک انسان اپنے عروج کو سر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کامیابیوں کے دروازوں کو دستک دیتا ہے تو یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ دوسرے کے لیئے زوال اور عروج کا سبب بنتا ہے یا وہ خود انہیں اپنے زوال اور عروج کا وجہ بننے دیتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جب کوئی عروج اور کامیابی کی طرف گامزن ہوتاہے، چاہے وہ جس بھی لحاظ سے ہو دوسرا انسان اس کو اپنے لیئے ناکامی اور زوال تصور کرتا ہے کیونکہ جب ہم کچھ نہیں کرپاتے، اگر کوئی اور اسے کرے تو یہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔

نکولو میکاولی جو آج سے کوئی پانچ سو برس پہلے 1429 مئی 3 کو اطالیہ کے شہر فلورنس میں پیدا ہوا، اپنے مشہور کتاب “دی پرنس “میں انسانی تعلیمات اور انسانی فطرت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ “انسان نا شکرگذار، دھوکے باز، مکار، چالباز اور لالچی ہوتاہے“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اپنے اس فطرت کے وجہ سے ایک ایسے دنیا اور معاشرے کا تخلیق کرنا چاہتے ہیں جہان انکی بالادستی اور سرپرستی ہو، جہاں وہ حاکم، اعلیٰ اور اپنے بات منوانے والے ہوں۔ ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، جو انکے مزاج کے مطابق ہو کیونکہ جب لوگوں کے افعال آپ کے مزاج کے مطابق نہیں ہونگے تو آپ اپنے مقرر کردہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہینگے، اس لیئے دوسرے انسانوں کو اپنے مفاد کے لیئے، انکو انکی حقیقت کی دنیا اور مزاج سے نکال کر اپنے بنائے گئے دنیا میں ڈال کر بروئے کار لایا جاتاہےاور اپنے مقصد کے حصول کے لیئے انہیں استعمال کیا جاتاہے اور جب لوگ اپنے افعال کو، اپنے آپ کے مزاج کے مطابق نہ کرینگے اور دوسروں کے مزاج کی پیروی کرینگے تو انکی ناکامی لازم ہوگی۔

ایسے انسان، ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں پر لوگ ذہنی طور پر مفلوج اور غلام ہوں، وہ اپنے نہیں بلکہ دوسروں کی طرز زندگی کے مطابق اپنی زندگی گذارے اور اس معاشرے میں بسنے والے باقی سارے باشندوں کا علم، ذہانت، سوچ اور فکر بھی دوسروں کے مطابق ہو، جو ان سے بالکل بھی مشابہت نہیں رکھتا، ایسے معاشرے میں حاکم اور محکوم کا رشتہ واضح طور پر نظر آتاہے ۔

میرے خیال میں ایسا معاشرہ تخلیق کرنا، جسکا اوپر ذکر کیا گیا ہے، انسانیت کی تخلیق کرنے اور اس کے راہ میں رکاوٹ ہے، اس معاشرے کو تخلیق کرنے والے انسانیت کے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے، اگر ہم انکو انسانیت کا دشمن کہیں تو بہتر ہے۔

یہ کس قسم کی انسانیت ہے، جہاں انسان، انسان سے محفوظ نہیں، جہاں انسان کو جینے کا حق نہیں، زندگی جو کہ اللہ کی عطاء کردہ ہے، جو کہ قدرت کے قانون کے مطابق چل رہا ہے، جس میں کسی اور کی مداخلت کا کوئی گنجائش نہیں، وہاں بھی انسان قدرت کے قانون کو چیلنج کررہاہے۔

کیا واقعی یہ انسانیت ہے؟ جس میں انسان محفوظ نہیں، جس میں انسان زنداں میں ہو، جس میں سانس لینا محال ہو، جس میں جوانی مرنے کے لیئے ہو، جس میں عورتوں کی عزت محفوظ نہیں، جس میں ماں اپنے بیٹوں کے لیئے ترسے، جس میں بہن اپنے بھائی کے لیئے ترسے، جس میں خوشی ماتم میں بدلے، جس میں حقیقت سے ڈرتے ہوں، جس میں سوچ مفلوج کی گئی ہو، جس میں کتابوں سے دوستی کرنا جرم، جس میں قلم اٹھانا جرم، جس میں بولنا جرم، اگر واقعی یہی انسانیت ہے، تو میں نہیں مانتاایسے انسانیت کو، تو میں بھی مجرم ہوں، میں اقرارِ جرم کرتاہوں، کیونکہ میں بھی کتاب دوست ہوں۔

کہتے ہیں کہ پتھر اس درخت کو مارا جاتاہے، جس میں میٹھے پھل ہوتے ہیں، جو آپ کے لیئے مفید ہوتے ہیں، جب انسان کسی سے ڈرتا ہے، اسکی وجہ سے خوف میں مبتلا ہوتاہے، اسکے خلاف کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس سے یہ بات واضح ہوتا ہے کہ یقیناً اس شخص کی کچھ نہ کچھ اہمیت تو ہوگا وگرنہ اس سے خوف کا کیا ضرورت ہے۔

کتاب دوست انسان ہمیشہ سچ اور حقیقت کے تلاش میں ہوتا ہے، وہ علم کا پیاسا ہوتاہے، وہ شعور اور آگاہی کی طرف گامزن ہوتاہے، وہ کسی بھی معاشرے میں ترقی اور خوشحالی کا خواہاں ہوتاہے، وہ معاشرے کے نشوونما کو تمام تر سیاق وسباق کے حوالے سے دیکھتا ہے، وہ اپنے قومی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے، اور سچائی سے آشنا ہوتاہے، کیا یہی وجہ تو نہیں کتاب دوست انسان سے ڈرنے کا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔