بلوچ ڈاکٹر فورم کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچستان میں میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے تاخیر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچستان میں میڈیکل اسٹوڈنٹس کے ساتھ ناانصافی کا تسلسل جاری ہے ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں میڈیکل کالجز میں داخلوں میں تاخیر اسی عدم توجہی اور لاپرواہی کے جاری سلسلے کی کڑی ہے۔
بلوچستان میں نئے میڈیکلز کا قیام یقینی طور پر ایک خوش آئند عمل تھا لیکن اگر کالجز صرف نام کے طور پر بنائیں جائیں اور عملی طور پر طلباء ان سے استفادہ حاصل کرنے سے محروم رہیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو تعلیمی شعبہ میں ہمیشہ پیچھے رکھا گیا ہے اور بی ڈی ایف یہ سمجتھا ہے کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت ہورہا ہے اور کئی دہائیوں سے جاری ہے دو سال پہلے جب حکومت نے نئے میڈیکل کالجز کا اعلان کیا تو طلباء میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی لیکن اب ایک بار پھر طلباء کی داخلوں میں تاخیر اُن کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کی مترادف ہے بلوچستان کے تینوں نئے کالجز کا پی ایم ڈی سی سے ریکوگنایز نہ ہونا حکومت اور متعلقہ اداروں کی تعلیم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اس مرتبہ داخلہ کی زمہ داری براہ راست بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز انتظامیہ اور وائس چانسلر کے ہاتھ میں تھا لیکن ٹیسٹ انٹرویو اور چوائس لیکر اب کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا ۔
بلوچ ڈاکٹرز فورم نے شروع دن سے BUHMS کے تمام تقرریوں پر اپنے تحفظات ظاہر کیا تھا اور آج میڈیکل یونیورسٹی کے کرتا دھرتاوں نے خود اپنی اہلییت ثابت کردی کہ وہ کتنے اہل ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ کہ حکومت سمیت تمام متعلقہ زمہ دار اداروں سے پرزور مطالبہ ہے کہ تینوں میڈیکل کالجز میں تدریسی عمل فوراََ شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ ان کالجز کی پی ایم ڈی سی سے رجسٹر کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ طلبا کا سال ضائع ہونے سے بچ جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ ڈاکٹرز فورم نے صوبائی حکومت سے اپیل کی کہ بولان میڈیکل اینڈ ھیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر سمیت تمام متنازعہ تقرری و تعنیاتی جن میں سنیٹ اور سینڈ یکٹ بھی شامل ہیں کینسل کی جائیں اور نئے سرے سے دیگر صوبوں کی طرح صوبائی حکومت کے ذریعے دوبارہ کئے جائیں تاکہ بلوچستان کی اولین ہیلتھ یونیورسٹی بلاکسی شک و شکوک کے کامیابی سے ہمکنار ہو۔