مجھے اب قوم کیلئے جینا ہے
تحریر۔ لونگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عنوان میں بلوچستان کی موجودہ حالت زیر بحث لانا ہوگا، آج بلوچستان یعنی بلوچ قوم کس مرحلے پر ہے آج بلوچ کی حیثیت کیا ہے؟ دنیا کے سامنے آج بلوچ ایک محکوم قوم کی حیثیت سے ہے، آج بلوچ قوم دنیا میں جتنے بھی انسانی حقوق کے ادارے ہیں ان کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔ بلوچستان موجودہ دور میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے قبضے کے زیر اثر ہے۔ محکوم بلوچ قوم بین الاقوامی ترقی، معیشت، سیاست ،تجارت سے الگ ہو کر ایک محکوم زندگی گذارنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ بلوچ قوم ایک پر کٹھن دور سے گذر رہا ہے، جہاں پاکستان، افغانستان اور ایرانی قبضہ تاحال برقرار ہے۔ تینوں قابضین بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ وہ ہمارے وسائل، ہماری سرزمین کو ہمارے منشاء کے بغیر استعمال کررہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو آزادی کی پاداش میں شہید کیا جارہا ہے، ہماری عورتوں اور بزرگوں کو حراست میں لیکر پاکستانی ٹارچر سیلوں میں ذہنی اور جسمانی تشدد دی جا رہی ہے، اس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ آج تک بلوچ قوم کو ایک شہری کی حیثیت تک نہیں دی گئی، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان بلوچ کو نہیں بلکہ بلوچستان کو چاہتا ہے، جس طرح ٹکا خان نے کہا تھا کہ انہیں بنگالی نہیں بلکہ بنگلادیش چاہیئے ۔
اب پاکستان کی معیشت اتنی گر چکی ہے کہ وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کو بہتر بنا ہی نہیں سکتا، اب اس کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ بلوچ وسائل کی لوٹ مار کرکے اپنے معیشت کو بہتر بنائے، اسی وجہ سے وہ ہماری سر زمین اور وسائل کی ہمیشہ لوٹ مار کریگا۔
جس طرح محمد علی جناح نے اپنے چودہ نکات میں کہا تھا کہ تمام علاقوں کو ایک ہی اصول پر خودمختیاری دی جائے گی، صوبوں کے منشاء کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں کی جائیگی۔ لیکن آج تک بلوچستان میں، میں نے جتنا عرصہ بسر کیا ہے، مجھے دور تک غلامی، تشدد، جرائم و ڈکیتی کے علاوہ کہیں خود مختیاری دیکھنے کو نہیں ملی، پاکستان بلوچستان کو چین کو بیچ رہا ہے تو کبھی سعودیہ عرب کو۔ جس کو بلوچ مسلح جہد کار بلکہ پوری بلوچ قوم قبول نہیں کرسکتے، اس صورت حال میں بلوچ آزادی کی تڑپ میں شدت آرہی ہے۔
یہ نوجوان جو اپنے وطن سے اتنا محبت کرتے ہیں کہ ان کے سامنے صرف آزادی کی شدت ہے، انہوں نے ایک مقصد ٹھان لی ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنی آزادی لے کر رہینگے کیونکہ ان کو علم ہے بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ جمہوری الحاق نہیں ہوا ہے اور ہمارے بیچ جنگ ہے، صرف ایک جنگ، بلوچ سرمچار کی بندوق کی نلی سے نکلنے والی گولی کے پیچھے کوئی دہشتگردی نہیں بلکہ شعور ہے امن ہے ترقی اور خوشحالی ہے۔
بلوچ قوم کو آزادی تک انفرادیت پسندی اور خود پرستی سے گریز کرنا ہوگا، اب انہیں صرف اپنے لیئے نہیں جینا ہے، ہر فرزند، ہر شخص، ہر طالب علم، ہر استاد کو صرف یہ بات ذہن میں رکھنا ہے کہ اب اسے دوسروں کے لیئے جینا ہے، اپنے آنے والے نسلوں کے لیئے جدوجہد کرنا ہے کہ آج ہم اگر محکوم ہیں تو ہماری نسل کبھی غلام نہیں رہنا چاہیئے۔
بلوچ قوم کی ایک الگ تاریخ، تہذیب اور ثقافت ہے، جو کہ آج محکوم سی زندگی گذارنے پر مجبور ہے، آج سے ہم ایک دوسرے کیلئے، تحریک کیلئے اور جو ہماری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ان کیلئے سوچیں گے تو ہماری آزادی کی منزل کبھی پر کٹھن نہیں ہوگی، ہم دنیا کے نقشے پر ایک الگ قوم کی حیثیت سے بین الاقوامی سیاست، معیشت، تجارت کے ساتھ ہونگے، دیکھا جائے تو حالیہ دور میں بہت سے ایسے اقوام ہیں جو اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ انہیں ان کی منزل، ان کی جدوجہد کے مطابق ضرور ملے گی۔
اگر محکوم قوموں کو دیکھا جائے تو ریڈ انڈینز اور بہت سی مثالیں ہیں، جن کے عوام میں انفرادیت پسندی اور خود پرستی کوٹ کوٹ کے بھری تھی، جس سوچ کی وجہ سے وہ آج بھی دنیا کے نقشے پر غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔