بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے معلم آزادی استاد صبا دشتیاری کو ان کی آٹھویں برسی کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ استاد صبا دشتیاری جیسے باہمت، بہادر، با صول اور اپنے مقاصد سے محبت کرنے والی شخصیات صدیوں میں جنم لیتی ہیں۔ انہوں نے قومی مقاصد کی تکمیل کے لئے علمی و عملی میدان میں وہ کارنامہ انجام دیا جو صدیوں یاد رکھی جائیں گی۔
استاد صبا دشتیاری نے نوجوانوں خاص کر بلوچ طالب علموں میں قومی آزادی کے لئے وہ جذبہ پیدا کیا جو آج بھی استحصالی ریاستی نظام کو چیلنج کئے ہوئے ہیں۔ وہ ایک نظریاتی ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دانشور ادیب اور سیاست کے میدان میں ایک متحرک کردار تھے جنہوں نے اپنے افعال اور اعمال کے ذریعے نوجوانوں کی شعوری تربیت کی۔
ترجمان نے استاد صبا دشتیاری کی بلوچی زبان و ادب کے لئے خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک فرد کی حیثیت سے بطور ایک ادارہ بلوچ زبان و ادب کی ترقی و ترویج کو اپنا قومی نصب العین سمجھا، ریاست شروع دن سے ہی اپنے سیکورٹی فورسز اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بلوچ دانشوروں، استادوں اور طالب علموں کی ماورائے عدالت قتل عام کا مرتکب ہورہی ہے تاکہ بلوچ سماج میں روشن خیالی کی جگہ پسماندہ ذہنیت کو پروان چڑھاسکے۔ سر زاہد آسکانی، استاد صبا دشتیاری، حاجی عبدالرزاق اور دیگر استاد اور طالب علموں کی ماورائے عدالت قتل عام اسی استحصالی ذہنیت کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں بلوچ نوجوانوں اور طالب علموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صباء دشتیاری کی جدوجہد، بہادری ، ہمت اور حوصلہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اپنی قومی بقا اور تشخص کے لئے تمام ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر شعوری علم سے لیس ہو کر ہر ممکن حد تک جدوجہد کرنا ہوگا چاہے اس کیلئے اپنی جان کی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔