ایک پیغام، ماں کے نام – برزکوہی

775

ایک پیغام، ماں کے نام

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ہمیشہ سے لوگوں کو کہتے سنا ہے اور پڑھا ہے کہ دنیا میں سب سے عظیم، مقدس اور بے غرض رشتہ ماں اور اولاد کا ہوتا ہے، حتیٰ کہ دین اسلام بھی فرماتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے مگر یہ وضاحت نہیں ہوسکا ہے کونسی ماں؟ وہ ماں جس سے خونی رشتہ ہے یا وہ ماں جس سے فکری و نظریاتی رشتہ؟ وہ ماں جس نے جسم وہ جان جنا یا وہ ماں جس نے روح و پہچان جنا؟

11 مئی کو گوادر کے تاریخی پہاڑ کوہ باتیل پر دشمن پاکستان اور چین کی بلوچ سرزمین پر قبضے اور استحصال کی ایک علامت پی سی فائیو اسٹار ہوٹل پر بی ایل اے مجید بریگیڈ کے آپریشن زرپہازگ کے ایک اہم کردار فدائی کچکول عرف کمانڈو آپریشن سے قبل ریکارڈ شدہ ایک ویڈیو پیغام میں اپنے ماں کو جو پیغام دیتا ہے، اس پیغام کا ہر لفظ تاریخ ہے۔ باقی ویڈیو کے سارے تاریخی، پراثر، درد بھرے، مدلل، پرمغز اور علمی باتیں اپنی جگہ مگر یہ تاریخی الفاظ جب تک انسان زندہ ہے، ذہنوں پر نقش رہینگے اور سننے پر ہر با ضمیر انسان ضرور اشکبار ہوگا۔

کچکول کہتا ہے “میری ماں، جب آپ کو میری شہادت کا پیغام پہنچے، تو رونا نہیں بلکہ فخر کرنا، آپ کے بیٹے نے شہید ہوکر اپنا فرض پورا کرلیا ہے۔” کیا کیفیت ہوگا یہ باتیں کہتے وقت اس بیٹے پر اور کیا کیفیت ہوگی بیٹے کے شہادت کے بعداس ماں کی جب یہ پیغام سن رہی ہوگی۔

کیا کچکول اپنے پیغام میں فلسفیانہ انداز میں یہ فلسفہ پیش نہیں کررہا کہ خونی ماں کے رشتے سے فکری و نظریاتی ماں کا رشتہ عظیم سے عظیم تر ہے اور جنت الفردوس صرف خونی رشتے کے ماں کے قدموں تلے نہیں بلکہ پوری مادروطن کی خاک کے نیچے ہے۔

میں اپنے اس تحریر کے توسط سے ایک بات کی وضاحت کردوں کہ مجھے شہیدوں کے بارے میں روایتی، جذباتی تحریر لکھنے کا ہرگز شوق نہیں اور میں خود ایسے روایتی تحریر لکھنے اور پڑھنے کا قائل بھی نہیں کیونکہ ایک تو شہداء کی عظیم قربانیاں اور عظیم کردار ہمارے روایتی و رسمی تحریروں کے محتاج نہیں، دوسری بات یہ کہ اگر شہداء کے مشن کو آپ عملاً آگے بڑھانے میں فعال و متحرک نہیں ہونگے اور ساتھ ہی شہداء کے کردار کے سامنے آپ کے کردار میں تضاد موجود ہوگا تو پھر شہداء کی صفت خوانی کرنا، لکھنا، کہنا، سب کے سب وقت کا ضیاع ہے اور ان کا کچھ اثر اور فائدہ نہیں ہوگا۔

میں بھی جانتا ہوں، آج فدائی کچکول کی قربانی و کردار میرے اس بے ربط تحریر کا محتاج نہیں اور نہ ہی میں وہ رسم پورا کررہا ہوں کہ کچکول کے نام پر کچھ لکھ کر تحریک میں کوئی ذمہ داری پوری ہوگئی اور ناہی میرا مقصد انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شمار ہونا ہے۔

کچکول کیا تھا، کچکول نے کیا کہا اور کیا کِیا اس کی گواہی میں کون ہوں دینے والا اور لکھنے والا، اس کی گواہی آج کوہ باتیل اور کچکول کا کردار خود دے رہا ہے۔

میرے ذہن میں صرف کچھ سوال پیدا ہوئے کہ کیسے اور کس طرح سے خونی رشتے سے فکری و نظریاتی رشتے بالاتر اور عظیم بن جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے پھر آپ کو ایسے ہی بہت سے جہدکار مل جائینگے جو تحریک و جہدوجہد اور جنگ کے ساتھ ساتھ خونی و ذاتی و قبائلی اور خاندانی رشتوں کے حق ادائیگی کے دلائل دیتے ہیں، پھر کچکول نے کیوں اس حق اور حقداری کو نہیں سمجھا اور ہم جیسے جہدکار سمجھ رہے ہیں، آیا ہم سوچ و سمجھ کے حوالے سے ان سے آگے ہیں؟ کچکول پیچھے تھا یا کچکول آگے ہے ہم پیچھے ہیں؟

میں خود اگر سوچ کے حوالے سے پیچھے ہوں تو میں اپنی تحریر میں کیسے اور کس طرح کچکول کی سوچ اور کردار کو بیان کرسکتا ہوں؟

میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ تمام جہدکار فدائینِ وطن بن جائیں اور یہ ممکن بھی نہیں ہے، مگر جب بات نظریئے و فکر اور خاص کر بڑے سے بڑے قوتوں کی شکست اور بلوچستان کی قومی آزادی کی ہوگی تو پہلی ترجیح اور اہمیت نظریئے و فکر، قومی عمل اور قومی جنگ کی ہوگی تو ہر دن، ہر لمحے، اگر فکر و عمل کی تعریف و ترجیح اپنے منشاء و خواہش سے کرنے کے بجائے حقیقی اور علمی بنیاد پر کریں تو پھر ہم قومی فکر و عمل کے حوالے سے بہتر سطح پر کھڑے ہونگے۔

صبح و شام، ہم سوچ و کردار اور عمل کے حوالے کہاں اور کس صحرا میں محو سفر ہیں، اس حوالے سے سمجھنا اور سوچنا ہوگا بلکہ صرف سوچ و سمجھ نہیں بلکہ عمل کرنا ہوگا۔

حالات و واقعات کا بہتر ادراک رکھتے ہوئے، تمام عالمی و علاقائی تبدیلیوں کے رخ اور سمت کو جان کر صرف اور صرف قومی آزادی کی قومی جنگ میں تیزی اور شدت پیدا کرنے کے علاوہ بلوچ قوم کے پاس نہ کچھ تھا اور نہ ہی کچھ ہے۔ اور جنگ میں شدت اور تیزی اس کردار اور سوچ میں پوشیدہ ہے، جہاں پہلا اور بنیادی ترجیح اور اہمیت صرف اور صرف اپنے مسلسل کام اور ذمہ داریوں کو قومی فرض اور قرض کی طرح نبھانا ہوگا، اس میں ایک فیصد سستی، کاہلی، غیرذمہ داری، لاپرواہی، عدم دلچسپی اور عدم توجگی گنجائش نہیں، وقت بہت کم مقابلہ بہت زیادہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔