بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاج کو 3590 دن مکمل ہوگئے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور کاکڑ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقعے پر بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے رہنما طیبہ بلوچ اور دیگر کارکنان بھی احتجاجی کیمپ میں موجود تھے۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کمسن بچوں اور خواتین کی ریاستی فورسز کے ہاتھوں اغوا انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کی آواز کو آج ریاست بزور طاقت دبانے کی روش پر ہے جو یقیناً اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عطا نواز بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ بی ایچ آر او
انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ بلوچ فرزندوں کو تشدد کے بعد اجتماعی قبروں میں دفنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ریاست کی بربریت اور وحشی پن کی سابقہ تاریخ کو دہرانے کا سلسلہ ہے کہ جب یہی ریاست 1971 میں بنگالیوں کی اسی انداز میں نسل کشی کا مرتکب ہوئی، ایسے میں ایک ریاست جو پوری دنیا کے امن و سکون کے لیے خطرے سے کم نہیں ہے اقوام عالمی کی خاموشی دنیا کے لیے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ سے فورسز ہاتھوں 2 طالبعلم حراست بعد لاپتہ
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہے لہذا سوشل میڈیا استعمال کرنے والے افراد ریاستی درندگی کو سامنے لانے کے لیے جدوجہد تیز کرے تاکہ پوری دنیا بلوچ قوم پر جاری ریاستی جبر کے حوالے سے آگاہی حاصل کرسکے۔