چیک میٹ بھی ہوسکتا ہے
نودشنز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
71سال کی غلامی اور قبضے کی وجہ سے آج بلوچ قومی شناخت، بلوچ ثقافت اور بلوچ سرزمین اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ موت آکر ان تمام چیزوں کے آنگن پہ دستک دے رہا ہے۔
آج بلوچ اپنی قومی شناخت اور بقاء کی خاطر خوشی خوشی موت کو گلے لگا رہا ہے اور جسطرح دنیا کی بڑی طاقتیں بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ایک پیج پہ ہورہے ہیں، ان تمام چیزوں کو اس وقت بلوچ بخوبی سے محسوس کرتے ہوئے اور آزادی کی جنگ میں تیزی لارہا ہے اور ایک سال سے بھی کم مدت کے اندر جس طرح تین فدائی حملے کرچکے ہیں، یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ یہ تمام چیزیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اب بلوچ کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بلوچ کے سامنے بچا ہی نہیں ہے، بلوچ مارے یا مرے میں نے پہلے بھی اپنے ایک آرٹیکل میں اس بات کی ذکر کیا ہے کہ جنگ کا اصول ہے مارو یا مرو۔
جنگ کو اگر تشریح کیا جائے، سادہ جواب یہی آئیگا جنگ مارنے اور مرنے کا نام ہے اور جنگ میں جنگ کے علاوہ کوئی اور چیز اہمیت نہیں رکھتا اور آج بلوچ بھی اس بات سے واقف ہے کہ دشمن ہمیں مار رہا ہے ہم مر بھی رہے ہیں اور بلوچ تحریک آزادی سے جڑے ہزاروں کی تعداد میں افراد کو پاکستانی فوج نے شہید کی ہوئی ہے اور روزانہ اور ہر مہینے دوست شہید ہورہے ہیں اور اب بلوچ لیڈراں بشمول بلوچ تحریک سے جڑے ہر ایک شخص نے یہ محسوس کیا ہے کہ اگر مرنا ہے تو پاکستان سمیت ان تمام طاقتوں کو سبق سکھا کر مرنا ہوگا۔
11اگست 2018سے لے کر 11مئی 2019تک اگر ہم بلوچ تحریک آزادی پہ ہلکی سے نگاہ ڈالیں تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ ان چند مہینوں کی پیریڈ میں جن کامیابیوں سے بلوچ تحریک آزادی ہمکنار ہوا ہے، شاید پچھلے 70ستر سالوں میں اس طرح کی کامیابیاں بلوچ تحریک کو نہیں ملی ہوں، ان چند مہینوں کے اندر بلوچ قوم نے بین الاقوامی طاقتوں سمیت پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ بلوچ سرزمین بلوچ ساحل وسائل پہ بلوچ قوم کی منشاء اور مرضی کے خلاف کوئی نہیں آسکتا ہے، اس طرح کے پیغامات نے نہ صرف دنیا کو سوچنے پر مجبور کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ دنیا کی جو طاقتیں ہیں، جن کے مفاد بلوچ سرزمین سے وابسطہ ہیں وہ ضرور اس وقت اس بات کو سوچنے پہ مجبور ہوئے ہیں کہ ہمارے جو مفاد بلوچستان اور اس خطے سے وابسطہ ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے ہمیں بلوچ قوم سے بات کرنا ہوگا۔
بات یہاں آکر بھی نہیں رکتا ہے، اگر جس طرح کی کامیابیاں بلوچ قوم نے پائی ہے، اسی طرح کے چیلنجز بھی بڑے ہیں، ایک بات بلوچ قوم کو ذہن نشین کر لینا ہوگا کہ بلوچ قوم پہلے ایک ملک اور ایک طاقت سے لڑ رہا تھا اب بلوچ ایک ہی محاذ پہ دو بڑے طاقتوں سے لڑ رہا ایک ہے چائینا اور ایک پاکستان ہے۔
اب بلوچ قوم اور خاص کر بلوچ لیڈران اور دانشوروں کو اگر فرصت ملے تو وہ شہیدوں کی توصیف اور تعریف سے آگے کچھ سوچ لیں کیونکہ آج جس طرح بلوچ چاہتا ہے کہ میں چائینا سمیت کسی بھی بڑے طاقت کو بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے نہیں دونگا اور چائینا بھی اسی ضد پہ ہے کہ ہم یہاں سرمایہ کاری کرینگے۔ اس وقت بلوچ قوم نے بڑے جنگ کا آغاز کی ہوئی ہے، اب بلوچ قوم کو ایک ہی ساتھ دفاع اور آٹیک کرنا ہوگا اگر آپ صرف آٹیک کرنے کی سوچ رہے ہو تو ایکشن سے جس طرح کا فائدہ ملا ہے اور ری ایکشن سے اس سے بھی بڑا نقصان ہوسکتا ہے اور ری ایکشن کے لئے بلوچ لیڈران اور دانشوروں کو پہلے سے سوچنا ہوگا اور اس کے لئے تیاری کرنا ہوگا اور نہیں کیا گیا تو جس طرح ایکشن سے بلوچ آزادی پسندوں نے گوادر پی سی ہوٹل پہ حملہ کیا اور جس کے بعد بلوچ آزادی کی تحریک کو فائدہ پہنچا ہے اگر بلوچ نے پاکستان اور چین کی ری ایکشن کے لئے تیاری نہیں کی تو نقصان ہوگا بہت بڑا ہوگا۔
میں نے اس حوالے سے پہلے بھی اپنے ایک آرٹیکل میں کہا تھا اور شطرنج کی مثال دی ہوئی تھی کہ ہم نے کئی بار دشمن کو چیک دیا ہے اور ایک ایسا چیک بھی دیا کہ ہم چیک میٹ تصور کر رہے تھے اور دشمن نے اپنے چیک میٹ کو ختم کرنے کے لیئے جس طرح ہمیں چیک دیا اور ہمارے وزیر کو مارا اور آج بھی ہم نے اسی طرح کا چیک دشمن کو دیا ہے، چیک ،چیک میٹ بھی ہوسکتا ہے مگر ہمیں اپنے چالوں کو صحیح طرح سے چلانا ہوگا اور ہمیں اس وقت اپنے وزیر سمیت تمام پیادوں کے بارے میں باریک بینی سے سوچنا ہوگا، ان کی حفاظت ہماری اولیں ترجیح ہونی چاہیئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔