چاغی کی فریاد
خالدبلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان قدرتی طور پر ہمیشہ خوبصورت مناظر اور دلکش وادیوں و سمندر سے لطف اندوز ہوکر زندگی کی یادوں میں مگن ہوکر باہمی زندگی کو ترجیح دیتا ہے تاکہ قدرت کی دی ہوئی وادیوں اور سرسبزو شاداب سرزمین میں پر امن زندگی گذار سکے۔ بلوچ قوم بھی انہی عزائم کے ساتھ ہزاروں سالوں سے سرزمین بلوچستان میں آباد ہے، بقول فاروق بلوچ قدرت نے بڑے ہی فرصت اور دلچسپی کے ساتھ سرزمین بلوچستان کو بنایا ہے اور اتنے رنگ عطا کیئے ہیں کہ بلاشک موسموں، پھلوں، زبانوں، نسلوں، تہذیبوں اور خوبصورتی و حسین پتھروں کا گل دستہ کہلانے کا مستحق ہے لیکن تاریخی اوراق ہمیں سبق دیتی ہیں کہ بلوچستان کے پرامن اور آسودہ، خوشحال ماحول کو جنگی کیفیت میں مبتلا کرنے کا آغاز 1795 سے ہوا۔ بیرونی حملہ آواروں نے بلوچ قوم کی تاریخ کے ساتھ بلوچستان کی خوبصورتی کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا۔ غلامی کی حالات اور سامراجی عزائم استحصالی منصوبوں اور جارحانہ کاروائیوں نے بلوچستان کو میدان جنگ کا اہم مرکز بنا دیا ہے جبکہ افعانستان میں ایک خونزیز جنگ ہورہی ہے جس میں بہت سے ملکوں کی افواج شریک ہیں اور اس کا کوئی خاتمہ دکھائی نہیں دے رہا، اس کے اثرات بلوچستان میں مرتب ہورہے ہیں۔
بقول انور ساجدی بلوچستان میں بین الاقومی کھیل کھیلا جارہا ہے، جو بلوچ سر زمین اور وسائل کو بہت بڑی سیاسی تزویراتی کشمکش میں دھکیل دینے کے مترادف ہوگا۔
موضوع کے اصل رخ پر تبصرہ کرنے سے حقیقیت آشکارہوتی ہے، ریاستی بربریت ظلم اور جارحیت ایٹمی تجربے اور طاقت کی جنونیت، قتل و غارت کیمیائی ہتھیاریوں کے تجربات نے چاغی کی خوبصورتی کو بےرنگ اور آلودہ کردیا، جب ویتنامی قومی تحریک آزادی کے دوران امریکی افواج نے تحریک کو ختم کرنے کے لیئے جارحیت استعمال کیا تو ویتنامی عوام کے پاس رسل جیسے دانشور کا حمایت موجود تھا، جس نے جنگ کے دوارن تحقیقات کرکے اس تابکاری کے خلاف آواز اٹھایا لیکن بلوچ قوم کی بدقسمتی ہے کہ انکے پاس رسل جیسے دانشو موجود نہیں، ہمارے ہاں ہر کوئی قلم کی نوک سےلکھنے کی جسارت کرتا ہے تو بس چاغی کی معدنیات کا ذکر کرتا ہے۔ چاغی کے عوام اس ایٹمی تجربہ گاہ اور تابکاری کی وجہ سے عوام مہلک بیماریوں کا شکار ہے، ریاستی ادارے اس تجربے کو اپنی بقاء کا ضامن سمجھتے ہیں، بھارت کو ایٹمی پاور دکھاتے ہیں، بقول جاپانی خاتون ڈاکٹر ماریکوکنٹانو کے ریاستی اداروں کو اس تابکاری اثراث کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، وہ کہتی ہیں ہم نے ایٹم بم کے اثرات دیکھے ہیں۔ انھیں اپنے بدن پر محسوس کیا ہے۔ ناگا ساکی پر اترنے والی قیامت کا شکار ہونے والی عورتوں میں سے ایک میری نانی بھی تھیں۔ مجھے اپنے مسخ شدہ چہرے پر اپنی نانی اور ان جیسی سینکڑوں عورتوں کے زخموں کی جلن محسوس ہوتی ہے۔ میری ایک آنکھ بصارت سے محروم ہے اور میرا بایاں ہاتھ مردہ ہے۔ میں نے اسی مسخ شدہ بدن کے ساتھ جنم لیا۔
اس خواتین کی الفاظ سے ہم چاغی کے مظلوم عوام کے درد کو محسوس کرسکتے ہیں 28 مئی کا دن بلوم قوم کو اپنی آزادی کی جنگ کا درس دیتی اگر ہم خاموش ہوجائیں تو مسقبل میں ریاست اپنی وحشیانہ کاروائیوں میں مزید شدت لائے گا۔.
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔