سر زمین سے محبت
تحریر۔ ظفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سرزمین سے کیوں لوگ محبت کرتے ہیں؟ کیا سرزمین ماں ہے یا ماں جیسی حیثیت رکھتی ہے؟ ایک ماں بچے کی پیدائش سے لیکر جوانی تک ان کی پروش کرتی ہے، انہیں پالتا ھے، انہیں اٹھنا بیٹھنا سکھاتی ہے، انکی ذہنی نشونما کرتی ہے، ہر وہ برے کام سے بچنے کی ہدایت کرتی ہے اور اپنے ہی بساط کے مطابق شعورسے سرشار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ ان کے روشن مستقبل کے لیئے در در کی ٹھوکریں کھا کر انکی درس وتدریس کی ابتداء کرتی ہے حالانکہ شعور کی پہلی سیڑھی بھی ماں کا گود ہوتا ھے۔ یہیں سے شعور کا ابتداء ھوتا ھے، جب بچہ پیدا ھوتا ھے ایک نئے دنیا میں اپنا قدم رکھتا ہے، تو وہ مہمان ایک مہمان جیسا ہوتا ہے۔ کیونکہ نومولود بچے جب اس جہان فانی میں آنکھ کھولتے ہیں، انہیں اس وقت صرف اور صرف انکے گردوپیش چند مہروان مائیں ہی نظر آتے ہیں حتیٰ کہ وہ یہ تک نہیں جانتے ہیں کہ ان ماؤں کے مجمع میں اسکی ماں کون ہے، اُس وقت وہ بچہ صرف ایک گھونٹ دودھ کے لیئے تڑپتا ہے کہ کون انہیں دودھ پلا کے سلائے۔
اسی طرح ایک مہربان ماں کی طرح سرزمین بھی ماں ھے، اگر اس جہاں فانی میں انسان کا جنم ھوا وآدم کی صورت میں وجود میں آیا، ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیئے آدم اور ھوا کا جنم کہاں سے ھوا یعنی بنی نوع انسان ہوا اور آدم کے اولاد ہیں اور آدم و ھوا سرزمین کے اولاد ہیں، اس سرزمین کی مٹی سے وجود میں آئے، یہ سر زمین کی محبت ھے اور ہر ایک فرزند کی یہی کوشش ھے جس سرزمین کو ہم ماں جیسی عظیم ہستی کا درجہ دیں اور فرزند پر یہ فرض بنتا ہے کہ ماں کی خدمت اپنا فرض سمجھ کر ماں کا قرض ادا کر سکیں، حالانکہ ماں صرف ہمارے نشو ونما کرتے ہیں اور ہمیں تنا ور درخت بنا سکتے ہیں لیکن جس ماں کا نام سرزمین ہے، اسکی حفاظت اور تحفظ کرنا تمام لوگوں کی ذمہ دارئ بنتی ہے، جو پیدائش سے لیکر آخرت تک تمام ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی ہے، اس عظیم ماں کا قرض کون پورا کرسکتا ہے، یہ قرض اُس وقت پورا ہوسکتا ہے، ہر ایک اس ماں کی حفاظت اور بقاء کو اپنا قومی اور ابدی فرض سمجھ کر اسکے دشمنوں کے خلاف سیاسی اور مزاحمتی جدوجہد کا باقاعدہ عملی طور پر ابتداء کرتے ہوئے، ہر قسم کے سخت حالات کا مقابلہ بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں حتیٰ کہ جان سے کوئی پیارا نہیں ہے لیکن سر زمین کی دفاع کے لیئے سرزمین کے فرزندان نے اپنی جانیں قربان کیں اور کرتے آرہے ہیں۔
دنیا میں ہمیں ایسی تاریخی داستانیں ملتی ہیں، جب افتاگانِ خاک نے اپنے اپنے سر زمین کی بقاء کے لیئے اپنے آباواجداد کو قربان کرتے ہوئے، تاریخ رقم کی اور تاریخ ان لوگوں کی اعلیٰ قربانیوں کو سنہرے لفظوں کے ساتھ تا ابد یاد کرتی ہے۔ سرزمین کی بقاء اور تحفظ کے لیئے دنیا میں بسنے والے مختلف اقوام کے فرزندان نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے، جو کسی قسم کی تعریف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان عظیم و سر خیل، زمین دوست، قوم دوستوں میں گوریلہ لیڈروں سے لیکر سپاہیوں تک لاکھوں کے حساب سے لوگ شامل ہیں۔ جنہوں نے قوموں کی بقاء ومستقبل کے لیئے اپنے آپ کو قربان کردیا اور قوموں کو سامراج اور قابض ریاستوں کی جکڑ سے آزاد کرایا، بقاء اور ایک آزاد مستقبل بسر کرنے کے لیے سخت اور کھٹن مسافت طے کرنا ھوگا۔
اسی طرح ایک افریقی باشندہ جناب نیلسن منڈیلہ اپنے قومی بقاء کی جدوجہد کی شروعات کرتے ہیں، تو انہیں مختلف صعوبتیں کاٹنا پڑیں، لیکن اسکے باوجود وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، ایک قوم کے روشن مستقبل کے لیے 28 سال تک جیل کی تاریک کوٹھڑیوں میں سخت اذیتیں کاٹ کر سامراج کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ قوم دوست انسان جو ایک قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، تو وہ خوف و لالچ اور گبھراہٹ سے کوسوں دور ہونگے اور وہ ہر پہلو کا جائزہ لیکر فیصلہ کرتے ہیں۔
آج دنیا میں جنوب افریقی قوم سفید فام انگریز اور گوروں کی غلامی سے آزاد ہیں اوردنیا کے نقشے پر افریقہ آزاد ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے، تو یہ نیلسن منڈیلہ کی عظیم قربانیوں کے ثمرات ہیں یعنی ایک فرد ادارے و تنظیم کی بنیاد رکھتا ہے، اداروں اور تنظیم کی روح سے قوم کے مستقبل کا ضامن ہوگا۔
اگر ھم کیوبا کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں ڈاکٹر چی گویرا کی گوریلہ جدوجہد اور کیوبا کی جنگ آزادی کی طویل داستانیں ملتی ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرزمین سے محبت اصل محبت یے اور اسی طرح 1839 ءسے لیکر ٝآج تک بلوچ قوم کے فرزندان، نواب مہراب خان سے لیکر شہید غلام محمد، شہید استاد اسلم بلوچ تک سب اپنے قومی بقاء کے لیئے انگریز مغل اور پنجابی سامراج کے خلاف ایک سیاسی اور مزاحمتی تحریک چلاتے آرھے ہیں۔ اس طویل جنگ آزادی میں لاکھوں سے زائد بلوچ فرزندان نے قربانیاں دی ہیں اور لاکھوں کے حساب ست پاکستان کے ٹارچر سیلوں میں اذیتیں کاٹ رہے ہیں۔ اس کے باوجود سرزمین سے محبت کارشتہ دن بدن مظبوط ہورہا ہے، سر زمین سے رشتہ توڑنا کسی کے بس کی بات نہیں، اگر سرزمین سے محبت کا رشَتہ لالچ ومراعات سے ٹوٹ جاتا تو پاکستان نے اپنے تمام تر انرجی ذوالفقار بھٹو سے لیکر عمران نیازی تک خرچ کیا لیکن ماسوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں کیا۔ ریاستی اداروں نے سرزمین سے محبت کے ناطے کو توڑنے کی تمام کوششیں کیں، لیکن سب من مٹی میں دب گئے۔ بلوچ قومی تحریک کے حالیہ ابھار نے ملکی اور بین الاقوامی بلوچ دشمن سازشوں کو یکسر نیست ونابود کر دیا، یہ سرزمین کی محبت ہے، مائیں اپنے فرزندان کو فخر سے دعا نیک کرتے ہوئے، سرزمین کی آزادی کی جنگ میں شرکت کے لیئے بھیج دیتے ہیں۔
اسی طرح شیر زال ماں بی بی لکی اپنے جوان سال بیٹے شہید خالد عرف زرین کے شہادت کا سنتے ہی بجائے ماتم کے ایک آڈیو پیغام میں شہید خالد عرف زرین کو شہادت کا مبارکباد دیتے ہیں اور ناپاک دشمن کو بھی یہ پیغام دیتی ہے کہ او! بزدل دشمن خوش مت ہونا ایک خالد عرف زرین شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں خالد اب تک زندہ ہیں تمہارا آرام سے بیٹھنا حرام کردیں گے۔
شہید خالد عرف زرین نے 2 مارچ 1989 کو شورش زدہ تحصیل مشکے کے ایک چھوٹے سے گاوں میہئ میں واجہ مبارک بلوچ کے گھر میں آنکھ کھولا۔ 5 یا 6 سال کی عمر میں بزرگ والد نے آپ کو گاؤں میہئ کے پرائمری اسکول میں داخل کردیا اور اس طرح آپ اپنے دیگر ہم عمر دوستوں کے ساتھ سکول جاتے ہی سکول آنے جانے کا عادی ہوئے اور سکول میں اپنے جماعت میں آپ کاشمار ایک محنتی طالب علم کی تھی اور علم سے دلچسپی رکھتے تھے، اسی طرح علم کی پیاس ہونے کیوجہ سے پرائمری تک آپ نے گاوں کے قریبی اسکول میں پڑھائی کی اور آپ کے ارادے پختہ تھے کہ مجھے ہر حال میں پڑھنا ہے اور آپ کی علم دوستی سے والدین بشمول فیملی کی یہی خواہش تھی کہ آپ علم سے سر شار ہوں، اسی طرح پرائمری پاس کرنے کے بعد اپنے تعلیم کو مزید جاری رکھنے کے لیئے مڈل سکول نوکجو جانا پڑا۔ نوکجو سکول سے آپ نے مڈل پاس کیا جبکہ میٹرک ھائی اسکول گجر سے پاس کی، اسی طرح دوران سکول آپ نے 2010 میں بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کردیا، یہ وہ دور تھا جب طلباء سیاست عروج پر تھا، بلوچستان کے ہر گلی وکوچے میں بلوچ طلباء سیاست سرگرم عمل تھی اور دوسری جانب قابض ریاست بی ایس او کے سیاست سے روز اول سے خائف تھی کیونکہ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سے شعور کی ابتداء ہوتی ہے۔ بلوغت تک ماضی اور مستقبل کی پچیدگیاں، باریک بینی سے دیکھتے ہوئے قابض اور سامراج سے علحیدگی اختیار کرتے ہیں، اس لیے قابض ریاست اورریاستی فورسز بی ایس او آزاد جیسے عظیم تنظیم کو کاونٹر کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔
اسی طرح شہید خالد عرف زرین 2010 سے 2012 تک بی ایس او آزاد کے فلیٹ فارم میں ایک مخلص اور سرگرم کارکن رہے، مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے غربت نے موقع نہیں دیا کیونکہ ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا، گھروالوں کا گذر بسر بڑی مشکل سے ہوتا۔ آپ نے نہ صرف تعلیم کو خیرباد کہہ دیا بلکہ سیاست کو بھی خیرباد کہہ دیا لیکن اُس کے باوجود سرزمین کی محبت نے آپ کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیا۔ 2012 کے اختتام میں بلوچ مزاحمتی تنظیم بی ایل ایف یعنی بلوچ لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی، آپ نے اس چھ سال کے دورانیئے میں ایک گوریلہ سپاہی سے لیکر ایک ٹیکنیکل کمانڈر کی حیثیت تک مختلف محاذوں پر دشمن ریاست کے فورسز کو پسپاء کرتے رہے۔
مشکے جیسے شورش زدہ علاقے میں سیکیورٹی فورسز نفسیاتی طور پر مفلوج تھے، جب 25 فروری 2019 کے علی الصبح سوشل میڈیا میں ایک خبر گردش کررہی تھی کہ بلوچستان کے ڈسٹرکٹ واشک کے علاقے راغے کے سنگلاخ وبلند وبالا پہاڑوں کے دامن میں ایک محاذ پر خالد عرف زرین شہید ہوئے ہیں، چند ہی گھنٹوں میں لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے آپ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے، شہید خالدعرف زرین کو سرخ سلام پیش کیا۔ اسی وقت ریاستی فورسز اور علاقائی ڈیتھ اسکواڈ خوشیاں مناتے رہے لیکن یہ دشمن کی بھول ہے، اس سرزمین کی کوک سے ہزاروں زرین نے جنم لیا ہے، شہید خالد عرف زرین نے سرزمین کا قرض ادا کردیا اور اب سرزمین کی آغوش میں محو خواب ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔