خونی جزیرہ – تامل ٹائیگرز کے عروج اور پسپا ہونے کی کہانی
تحریر۔ پیردان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“یہ جنگ اپنے تلخ انجام کو پہنچ چکی ہے، ہم نے اپنی بندوقیں خاموش کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔” سترہ مئی دو ہزار نو کے دن یہ الفاظ دنیا کی سب سے منظم سمجھے جانے والے عسکری تنظیموں میں سے ایک ایل ٹی ٹی ای کے بین القومی خارجہ امور کے سربراہ پھتا ناتھن کے تھے، جو عسکری شکست کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔
سنہالی اکثریتی علاقے میں اس دن جشن کا سما تھا اور جنوبی تامل اکثریتی علاقے کے لوگ ماں باپ کے ہوتے ہوئے یتیم ہوگئے تھے۔ سنہالی، لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کے قائد ویلو پلئی پربھاکرن کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے۔
انیس سو چہتر میں قائم ہونے والی ایل ٹی ٹی ای نے تین دہائیوں پر محیط خونی لڑائی میں کئی کامیابیاں حاصل کیں اور جہاں چاہتے اپنے چھاپہ مار کاروائیوں کے ساتھ پہنچ جاتے، سری لنکن صدر کے ساتھ ہندوستانی وزیر اعظم تک انکے لیئے آسان ہدف تھے۔ جن میں سری لنکا کے صدر رانا سنگھے پریما دھاسا، وزیر دفاع رنجن انتے اور ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی فدائی حملوں میں مار دیئے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں تقریبا ستر ہزار کے لگ بھگ لوگ اپنی زندگیاں ہار گئے، یہ وہ وقت تھا جب ایل ٹی ٹی ای کے پاس ایک منظم بحری فضائی اور زمینی فوج تھی، خودکش حملوں میں دنیا کی سب سے بڑی مہارت رکھنے والی چھاپہ مار تنظیم سمجھی جاتی تھی۔ فدائی حملوں کے لیئے طیاروں تک کا استعمال کرتے تھے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ہندوستان اس تنظیم کو عسکری اور مالی تعاون تک کرتی رہی، بہت سے موقعوں پر سری لنکن حکومت اور تامل ٹائیگرز کے درمیان اگر کسی بات پر مذاکرات ہوتے تو ہندوستان ان مذاکرات میں بطور تیسرے فریق کی حیثیت موجود ہوتا۔
مصنفہ اور بین القومی خبر رساں ادارے سی این این سے وابسطہ صحافی انیتا پرتھاپ اپنی کتاب island of blood میں لکھتی ہیں کہ پربھاکرن ایک طلسماتی اور حیران کرنے والے دور اندیش شخصیت کے مالک تھے، انیتا پرتھاب لکھتی ہیں ایک انٹرویو کے دوران پربھاکرن نے مجھ سے کہا تھا آج جو ہماری ہر طرح سے مدد کررہے ہیں، ایک دن ہماری ان کے ساتھ لڑائی ہونے والی ہے۔ یہاں پر بھاکرن کا اشارہ ہندوستان کی طرف تھا اور بعد میں جاکر یہ خدشہ حقیت کا روپ دھار گئی۔ ہندوستانی حکومت اور سری لنکن حکومت کے مذاکرات ہوگئے اور ہندوستان نے پربھاکرن کو جنگ بندی کرنے کا کہا، راجیو گاندھی سے دہلی میں ہونے والے ایک ملاقات میں انکی ہاں میں ہاں ضرور ملایا مگر اپنے وطن جاکر وہ اس مذاکراتی عمل سے انکار کرگئے ۔سری لنکا کے اس وقت کے صدر مہندا راجا پکسے تامل ٹائیگرز کے خلاف فیصلہ کن کاروائیوں کا فیصلہ کرچکے تھے۔
دوسری طرف چھاپہ مار کاروائیوں کے لیے بنیادی حالات میں تامل ٹائیگرز کے پاس تربیت یافتہ جنگجو، مقامی آبادی کی حمایت دشمن سے بہتر حکمت عملی تو تھی مگر انکی شکست کی وجہ وہ جزیرہ بنا جہاں وہ قید ہوکر رہ گئے تھے۔
اس سے قبل ناروے کی جانب سے دوہزار دو سے دوہزار آٹھ تک وقتاً فوقتاً مذاکرات ہوتے رہے، مگر جنوری دوہزار آٹھ کو پانچ سال تک ہونے والے مذکرات بغیر نتیجے کے ختم ہوگئے اور اسی دوران ایل ٹی ٹی ای کے ایک اور سنیئر کمانڈر کرنل کرونا اور پربھاکرن کے مابین جنگی حکمت عملی اور طریقہ کار پر اختلافات شروع ہوگئے تھے، جن میں تنظیم میں دھڑے بندی کی خبریں اندرون خانہ گردش کرتے کرتے میڈیا میں رپورٹ ہورہی تھیں، جو ایل ٹی ٹی ای جیسی سخت نظم و ضبط اور رازداری کو اپنا تنظیمی منشور کی پہلی شق ہونے کے باوجود میڈیا تک خبریں پہنچنا تعجب کی بات تھی۔
دوسری طرف سری لنکن حکومت اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اور خونی لڑائی لڑنے جاری تھی، ذارئع ابلاغ پر بندش لگائی گئی، ٹائیگرز حملوں میں فوجیوں کے مارے جانے کی خبریں عوام تک پہنچانے سے روک لگائی گئی۔
ادھر اندرون خانہ دو ہزار چھ کو سری لنکن حکومت نے عالمی سطح پر اپنے ہمنوا پیدا کرنے کے لیئے سفارتی کوششیں شروع کردیئے تھے، تامل ٹائیگرز کے لیئے سب سے بڑی مالی امداد دیگر ممالک میں مقیم تامل کے ذریعے ہوتی تھی، امریکہ نے اپنے ملک میں مقیم تامل ٹائیگرز کو مالی مدد دینے والے تاملوں پر گہری نظر رکھنی شروع کی، حیران کن بات یہ تھی کہ ایل ٹی ٹی ای کو سب سے پہلے دہشت گرد تنظیم برطانیہ نے ڈ کلیئر کیا اور ساتھ میں بارہ ملین پاؤنڈ کے ہتھیار سری لنکن حکومت کو فروخت کردیئے، سری لنکن حکومت کے کہنے پر یورپی یونین پر دباو ڈالا گیا کہ ایل ٹی ٹی ای کو دہشت گرد تنظیم قرار دے، اس دوران دو ہزار چھ کو امریکہ نے سری لنکن حکومت کو سات ملین ڈالر کی امداد دی، ادھر چین نے سری لنکا کو جے ایف سیون جیٹ مفت میں فراہم کیئے، اسرائیل چین اور ہندوستان سے سری لنکا نے بڑی مقدار میں جنگی ساز و سامان کی کھیپ امداد کے طور وصول کیا۔
ایل ٹی ٹی ای کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کا آغاز ہوچکا تھا، ذمینی، فضائی اور بحری دستے تامل ٹائیگرز کے خلاف پیش قدمی کرچکے تھے، تامل ایک جزیرے میں شمال اور جنوب میں پھیل چکے تھے شہروں میں تنظیم کی کاروائیاں نہ ہونے کے برابر تھی، سری لنکن حکومت نے ایک ساتھ ٹائیگرز کے خلاف مختلف جگہ محاذ کھل دیئے تھے، جنگ کے شروعاتی دنوں میں ایل ٹی ٹی ای کے بہترین سینئر کمانڈر مار دیئے گئے تھے سنہالی علاقوں میں تاملوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی، چھاپہ ماروں کے بہترین کمانڈر گرفتاری سے بچنے کے لیے خودکشیاں کرنے لگے، سری لنکن فورسز ایک حکمت عملی کے تحت تاملوں کو جنوب سے شمال کی طرف دھکیلنے کی کوششوں میں تھے تاکہ تامل ٹائیگرز کو ایک چھوٹے سے علاقے میں محدود کرکے مار دیا جائے ۔۔اور لڑتے لڑتے تامل ایک مربع میل کے علاقے تک محدود ہوگئے، سب سے پہلے لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کے انٹیلی جنس چیف پوتو امان اور بحری یونٹ کے سربراہ سوسائی خود کو گولیاں مار دیتے ہیں، جبکہ میڈیا پر بندش اور آزاد زرائع نہ ہونے کی وجہ سے سری لنکن حکومت یکطرفہ اپنے مفاد میں خبریں میڈیا تک پہنچا رہی تھی، جس کے مطابق لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کے تمام لیڈر شپ انکی فوجی کاروائی میں مارے گئے تھے اور پربھاکرن کو زخمی حالت میں گرفتار کرکے لے جایا جارہا تھا، تب وہ ایمبولنس سے بھاگنے کی کوشش میں مارے گئے تھے۔
آج بہت سے حلقوں اور سول وار پر مہارت رکھنے والے بیشتر مبصرین کا ماننا ہے کہ لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کی شکست کا باعث اس جنگ کو گوریلہ کاروائیوں سے زیادہ ایک ریگولر آرمی کی طرح لڑنا، وقت سے پہلے متوازی حکومت کا قیام عمل میں لانا، یہ جانتے ہوئے کہ ہندوستان آگے جاکر انھیں دھوکہ دے گا مگر اس خدشے کے باوجود ہندوستان پر بھروسہ کرنا اور مسلح جد وجہد کے دوران سیاسی اسٹریکجر کا نا ہونا، شہری علاقوں کے بجائے اپنے کیمپوں کو ایک بند جزیرے تک محدود رکھنا اور جنگ میں شدت پیدا کرنا تھا۔
مگر بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ دو ہزار نو کو بظاہر ہمیشہ کے لیئے دفن ہونے والی تامل ٹائیگرز کی تحریک ایک بار پھر سر اٹھائے گی اور اندرون خانہ سیاسی سرگوشیاں ایک نئے جنگ اور نئے صف بندیوں کی طرف اشارہ دے رہی ہیں۔
گوکہ کینیڈا، امریکہ، یورپ اور برطانیہ میں مقیم تاملوں کی سیاسی جدوجہد لیف لٹ اور پمفلٹ اور سیمیناروں کی صورت جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے دنیا میں جاری آزادی کی تحریکیں تاملوں سے سبق لیں گے یا تامل پھر سے ابھر کر اپنے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں پر سبق دیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔