بھائی اپنے ماں باپ کو کیوں رلاتے ہو؟ ۔ سمیرجیئند بلوچ

268

بھائی اپنے ماں باپ کو کیوں رلاتے ہو؟

تحریر۔ سمیرجیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گوریلا جنگ کو کمزور کا طاقتور کے خلاف جنگ کا نام دیا جاتاہے، یعنی وہ کمزور قوت جواپنے مد مقابل طاقت سے آمنے سامنے جنگ کی استطاعت نہ رکھتاہو یہ راستہ چنتا ہے، چاہے یہ طاقت افرادی قوت، کرائے کے فوجی، جاسوسی نظام، جاسوس ادارے، جاسوس جہاز، اقتصادی، فوجی مڈی مثلاً جدید سے جدید ہتھیار گولہ بارود، کیمیائی ہتھیار، ٹرانسپورٹیشن، جدید مشینری، جنگی ہیلی کاپٹرز، ٹینک و بکتر بند غیرہ علاوہ پروپیگنڈہ کے ذرائع ریڈیو، ٹیلی ویژن ،اخبارات رسالے، سوشل میڈیا، مواصلاتی نظام کا کنٹرول ہیکنگ سسٹم اور ٹریس کرنے کا اعلیٰ نظام ان سب سے یکسر محروم ہوتا ہے۔ تاہم گوریلا کے پاس مضبوط ارادے سمیت مخصوص اور فکری نظریاتی دوست ہوتے ہیں، جن کے پاس روایتی ہتھیار، جو ایک گوریلا پیدل اپنے موومنٹ کے دوران اٹھا اور رکھ سکے ہوتے ہیں۔

حقیقی معنوں میں دیکھاجائے تو دشمن کے مقابلے میں اس کے پاس قابل ذکر ایسی چیز نہیں ہوتی، جو دشمن کو میسر ہو۔ تاہم جیساکہ پہلے بتایا گیا کہ گوریلا کے پاس ایک پختہ ارادہ اور اہم مقصد جوکہ فکر اور نظریہ سے لیس ہوتاہے حاصل ہوتاہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی اس کا سرمایہ کل ہے اور یہی ایک کمزور گوریلا کو اپنے سے سوگنا طاقتور، ہوشیارو مکار دشمن پر فوقیت دلواتا ہے، اور وہی دشمن جس کی چیخ و پکار اور دھمکیاں آسمان کو چیرتی ہوئی آسمان سے اوپر جاتی ہیں، یہی ماردھاڑ دہشت اور ہراس پیدا کرنے والا دشمن گوریلا کے سامنے ایسے گڑگڑاکر جھک کر سرزمین پر ناک رگڑنے پر مجبورہوتا ہے۔ جیساکہ ایک مست بے قابو اونٹ نکیل ڈالنےکے بعد ایک چھوٹے بچے کا فرمانبردار بن کر اس کے رسی کھینچنے پر اٹھتا اور بیٹھتاہے۔

اگر گوریلا اپنے ارادے اور عمل میں مضبوط ہو، مقصد اور فکرسے بھی لیس ہو، مگر وہ وضع کردہ ضابطے، جس کی وجہ سے وہ اپنے سے سوگنا طاقتور دشمن سے ممتاز ہوتا ہے، کو اپنے اوپر لاگونہ کرے یا ان وضع کردہ اصولوں پر عمل کرنا چھوڑدے تو اس کا شیرازہ ریت کی طرح اڑکر بکھر جاتاہے۔ ان اصولوں میں سے پہلا اور آخری اصول ہم دعوے ٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ جسے روح کی حیثیت حاصل ہے وہ ہے راز داری، اگر کوئی بھی گوریلا رازداری کا پاس نہیں رکھ سکے گا تو آسان سی بات ہے، جب جسم کو روح الوداع کہے تو وہی طاقتور ہستی، جس کی نام اور خوف سے زمین کانپ اٹھتا تھا، وہی ہستی دنیا کے کمزور ترین جانور کیڑوں کا با آسانی خوراک بن جاتاہے۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ جب ایک گوریلا، جس میں راز داری نہ ہو وہ طاقتور دشمن کے سامنے ایک پل بھی نہیں ٹک سکے گا۔ ہر کوئی اتفاق کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرےگا کیونکہ انھیں ادراک ہوتاہے کہ گوریلا جنگ یا گوریلا کا واحد طاقت یہی تھا، جب یہ نہیں رہا تو وہ خود کس کھیت کی مولی ہے۔

جب منہ پر راز کی بات آتی ہے تو اکثر گوریلا یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی ایسی چیز ہوگی جو ڈوزریا ہاتھی سے مشابہ ہوگا اور اسی طرح طاقتور ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ یہ ڈوزر کے طاقت سے لاکھوں گنا طاقتور اس وقت ہوگا جب کوئی اس کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے عمل سے دکھائے۔ رہی بات مشابہ کی تو وہ شاید کسی فلسفی کےعینک میں اسی طرح قید ہو، مگر عام حالت میں وہ ایک تنکے کے برابر ہوسکتاہے اور اسے اس حساب سے دیکھنا چاہیئے۔ اگر ہم نے تنکے کو نظر انداز کرکے کسی بھاری چیز کے مشابہ مانا تو کنویں میں گرنے اورگردن دھڑسے الگ ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

راز کہاں سے شروع ہوتی ہے، ہم اسے آسان زبان میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے ہم آسمان یا سمندر کے تہہ میں ڈھونڈیں۔ جب وہ روح کی مانند ہوا تو ہمارے ہی آس پاس بھٹکے گا، اسے وہاں نہیں یہاں پاس ہی ڈھونڈنا چاہیئے۔ مثال کے طورپر سرمچار جب گوریلا کیمپ پہنچتاہے تو اسے کوڈ نام دیا جاتاہے۔ یعنی پارٹی تنظیم نے آپ کو اس مقصد کیلئے پہلی ذمہ داری کا بوجھ نام کے صورت میں دیا۔ اگر اس کی گہرائی میں جائیں تو یہ ایسی بھاری ذمہ داری ہے کہ شاید ایک طرف پہاڑ کو ترازو میں رکھیں اور دوسری جانب راز کو تو شاید راز پہاڑ پر بھاری پڑے، جس طرف راز ہے پلڑا وہیں فوراً جھکے گا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ راز وہی ہیرے کا نگینہ ہے، جس کی قیمت کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا، چاہے دنیا کے تمام ممالک یکجا ہوں۔ راز آگے چل کر ایٹم کی طرح اور چھوٹے چھوٹے ذرات میں تقسیم ہوتاجائے گا۔ کہا جائے گا آپ کسی دوست کو اپنے علاقے، زبان، قومیت، قبیلے، کے بارے نہیں بتائیں گے، نا ہی دوسرے دوست کو اختیار ہوگا کہ وہ آپ سے یہ چیزیں پوچھے یا آپ کی تصویر اور آپ کا فون نمبراپنے پاس محفوظ رکھے، اسی طرح بتایا جائے گا کہ گوریلا اصول ہے کہ آپ کے پروگرام کے بارے آپ کے بیوی تک کو معلوم نہیں ہونا چاہیئے۔ آپ کہیں سفر یا موومنٹ کریں تو تاریکی ،اور خراب موسم کے علاوہ ،ایسے راہ کا انتخاب کریں جو عام گذرگاہ نہ ہو، نا ہی اس راستے پر آپ یا آپ کا سواری کوئی نشان چھوڑے۔ ہمیشہ پتھریلا راستہ چنیں یا ایسا جہاں آپ کے نشان نظر نہ آئیں، رات کو لائٹ کا استعمال منع ہوگا، کاروائی کیلئے بھی تاریکی سود مند رہے گا، اپنے قیام کے جگہ پر کچرے اور چمکدار چیزیں پھینکنے سے گریز کرنا ہوگا، دن کی روشنی میں دھویں پر قابو پانا ہوگا، حتیٰ کہ یہ بھی کہا جائے گا کہ جہاں حاجت پورا کریں تو انھیں فوراً دفنا دیں، پوری زندگی جہاں بھی رہیں کسی بھی حالت میں چوبیس گھنٹہ بہریے میں رہنا ہوگا وغیرہ )۔

یہی ذرات آپ کو مختلف اشکال یا بھیس میں نظر آتے اور محسو س ہوتے رہیں گے۔ انکی پاسداری شروع کی جائے گی تو اس وقت انھیں دیکھنے کیلئے آپ کو خوردبین کی ضرورت پڑے گی، جس گوریلا یا بلوچ سرمچار نے راز کو خوربین کی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا تو اسی لمحے سے کامیابی اس کے قدم چومنے لگے گی۔ اگر یہ آلہ استعمال کرنا بے مقصد اور بوجھ جانا تو زوال اس کا مقدر ہوگا۔

اب یہ ذمہ داری بلوچ سرمچاروں کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں اور خلوص نیت سے پکا ارادہ کرکے نکلے ہیں کہ ہمیں دشمن سے آزادی چھیننا ہے تو انھیں یہ زہر کا پیالہ جس کا نام رازداری ہے پینا ہوگا۔ اگر نہیں تو بلوچ رہنما عطاء اللہ مینگل کے اس سوال کا جواب دینا ہوگا ۔ ’’ بھائی کیوں آپ اپنے ماں باپ کو مفت میں رلاتے ہو،آپ کو اس راستے پر آنے سے پہلے ہزار بارسوچنا تھا کیا میں اس راستے پر سفر کے قابل ہوں ‘ ۔ ‘

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔