فرانسیسی صدارتی محل کے ذرائع نے کہا کہ اگر ایران نے جوہری معاہدے کے عہد کی خلاف ورزی کی تو یورپی ممالک ایران کے خلاف دوبارہ تعزیرات عائد کر دیں گے، ایسے میں جب ایران نے کہا ہے کہ وہ سمجھوتے کی پاسداری کو کم کرنے پر غور کر رہا ہے، جس سے امریکہ پہلے ہی الگ ہو چکا ہے۔
ایران نے امریکی بحری بیڑے کی مشرق وسطیٰ میں تعیناتی کے امریکی اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پرانی خبر ہے، جسے نفسیاتی جنگ کے حربے کے طور پر دوبارہ سامنے لایا گیا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ وہ بہت جلد 2015ء کے معاہدے کے ضمن میں اپنے وعدوں سے ہٹنے کا اعلان کرے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے ایک سال کے بعد اس معاملے پر تناؤ میں شدت آ گئی ہے۔ معاہدے کے تحت بین الاقوامی تعزیرات اٹھائے جانے کے بدلے ایران اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے پر رضامند ہوا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی تعزیرات بحال کر دی ہیں اور انہیں وسیع کر دیا ہے، اور مؤثر طریقے سے دنیا بھر کے ملکوں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ایرانی تیل کی خریداری بند کر دیں یا پھر اپنے اوپر لگنے والی تعزیرات کے لیے تیار ہو جائیں۔
ایران نے معاہدے کی پابندی جاری رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ کے یورپی اتحادی جو معاہدے سے امریکی علیحدگی کے اقدام کے خلاف ہیں، وہ امریکی معاشی نتائج کی شدت کو زائل کرنے کی کوششوں میں ناکام رہے ہیں، جب کہ وہ ایران پر زور ڈالتے رہے ہیں کہ وہ سمجھوتے کی پاسداری کرے۔
ایران کے ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ سمجھوتے پر دستخط کرنے والے امریکہ کے اتحادی ملکوں کو بدھ کے روز مراسلہ روانہ کرے گا جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔ ساتھ ہی وہ روس اور چین کو بھی مراسلہ بھیجے گا، جس میں بتایا جائے گا کہ معاہدے کی رو سے وعدے میں کس طرح کی کمی لائی جائے گی۔
ایران کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے خبروں کے اداروں نے بتایا ہے کہ ایران سمجھوتے سے روگردانی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ لیکن، وہ جوہری سرگرمی کو ایک حد تک بحال کر دے گا، جسے معاہدے کے تحت ترک کیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدارتی محل کے ذرائع نے بتایا ہے کہ یورپی ممالک کو ابھی اس بات کا علم نہیں آیا ایران کے ارادے کیا ہیں۔ لیکن، اگر ایران معاہدے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف تعزیرات دوبارہ عائد کی جائیں گی۔