نگارش: پروم کی صورتحال – مہران بلوچ

285

نگارش: پروم کی صورتحال
تحریر: مہران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہمیں ترقی اور مستقبل چاہیئے آنے والی نسل کےلیئے یا اس نسل کےلیئے تو سب سے پہلے ہمیں تعلیم کی ضرورت ہے، جو ہمارے پروم میں نہیں ہے۔ جس قوم کے پاس تعلیم نہیں سمجھ لو دنیا میں اُس قوم کا کوئی شناخت نہیں۔ وه قوم آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گیا، تعلیم ہمارے لیئے اس طرح ضروری ہے، جس طرح انسان کو زنده رہنے کےلیے پانی اور خوراک کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ پروم میں یہ چیز نہیں ہے۔

جب میں چهوٹے بچوں کو دیکهتا ہوں، وه بہت شوقین ہوتے ہیں تعلیم کے لیئے، اسکول جانے کےلیئے، جب میں نے ایک بچے سے پوچھا کہ تم اس پنکچر کی دوکان میں بیٹھ کر پنکچر لگاتے ہو سکول کیوں نہیں جاتے؟ تو وه معصومانہ انداز میں بولنے لگےکہ اسکول میں ٹیچر ہوتا تو میں جاتا، یہاں کوئی ٹیچر نہیں پڑهانے کےلیئے۔ اگر پورے پروم کا وزٹ کیا جائے کسی بهی سکول میں ٹیچر نہیں ہے، پورے پروم میں 27 سے زائد سکول ہیں، جن میں 4 مڈل سکول ہیں اور ایک ہائی سکول ہے، اگر دیکها جائے تو سکول میں کوئی ٹیچر نہیں، صرف چیک پوسٹ نظر آتا ہے یہ ہمارے تعلیم کا نظام ہے جو بارڈر کو سنبهالنے والے جوان ہوتے ہیں وه سکول میں میں مقیم ہیں، ایک طرف ہم تعلیم میں پیچھے ہیں دوسری طرف سکولوں کا یہ حال ہے۔

پروم کے عوام خاموش ہیں، صرف تعلیم سے محروم نہیں بلکہ تمام تر سہولیات سے ہم محروم ہیں، نہ بجلی ہے، نہ روڈ، نہ ہسپتال، نہ ڈیم، جو پروم کےلیئے بہت ضروری ہیں۔ پورے پروم میں 4 ہسپتال ہیں۔ جس میں صرف ایک ڈاکٹر ڈیوٹی دیتا ہے اس عظیم شخص کا نام ڈاکٹر نوروز ہے، جس نے پروم کےلیئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ باقی ڈاکٹر تو صرف اپنی تنخواہ لے رہے ہیں، اگر کوئی بیمار ہو تو مجبورا اُسے پنجگور کی طرف جانا پڑتا ہے، جو 100 کلومیٹر دور ہے اور دوسری بات جو ابهی پنجگور ٹو پروم لنک روڈ بنا تها، میں نے اس پر صرف ایک بار سفر کیا تها، اُس وقت کام چل رہا تها مگر مکمل نہیں ہوا تها میرے ایک دوست نے مجهے بتایا کہ وه روڈ ابهی سے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے اور بارش کے بعد اب وه کسی کام کا نہیں رہا۔ یہ لنک روڈ ایران بارڈر تک جاتا ہے، اس روڈ پر لوگوں کی آمد و رفت زیادہ ہے کیونکہ بارڈر نزدیک ہے، لوگ کاروبار کےلیئے اس روڈ پر سفر کرتے ہیں۔

پروم کا کجھور پوری دنیا میں مشہور ہے، مگر افسوس سہولت نہ ہو نے کی وجہ سے ہر سال کجھور مالکان کو لاکهوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، پورے پروم میں ایک بهی ڈیم نہیں ہے، جس میں پانی سٹور کیا جاسکے جب بارش ہوتی ہے سارا پانی ظائع ہو جاتا ہے۔ اگر ڈیم ہوتا تو پروم میں پانی کی قلت نہ ہوتی، پروم میں دو پوائنٹ پر ڈیم بن سکتا ہے، ایک ٹوبا اور زہ پر یہاں پر صرف تھوڑا کام ہو تو زبردست ڈیم تیار ہو سکتا ہے مگر ابهی تک کسی پارٹی نے پروم کےلیئے کام نہیں کیا، چاہے نیشنل پارٹی ہو یا عوامی پارٹی ہر کسی نے اپنے مفاد کیلئے عوام کو بے وقوف بنایا اور اپنا مقصد پورا کیا صرف پروم کا نام استعمال کیا ہے، ابهی تک میں نے کسی کو دیکها نہیں ہے، جو پروم کےلیئے کچھ کرے یا کچھ کرنے کا اراده کرے۔ ہاں صرف یہ دیکها ہے ہر کوئی اپنے مفاد کے پیچهے پڑا ہے۔

ارے ظالموں کوئی جا کر تعلیم اور صحت کی بات کرے تو کیا ہوگا اور کون سا پہاڑ ٹوٹ جائے گا اور سیاستدان بهی عجیب ہیں صرف ووٹ کے وقت ہر کسی کو یاد کرتے ہیں، ہر ایک کے درد میں شریک ہوتے ہیں، بس دوسرے ٹائم ملاقات کےلیئے یہ کہتے ہیں بهائی ٹائم نہیں ہے۔ الله کے واسطے اس طرح نہیں کرو، عوام کا درد اپنا درد سمجهو عوام نے آپ لوگوں کو ووٹ دیا ہے سامنے لایا ہے۔.

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔