عالمی اداروں کی خاموشی بلوچستان میں بسنے والے قوموں کیلئے مشکلات کا سبب بن رہی ہے – ڈاکٹر اللہ نذر

462

بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر نے اپنے ایک بیان میں بلوچستان میں جاری پاکستانی مظالم پر کہا ہے کہ قابض کے مظالم میں ہر گزرتے دن شدت اور تیزی آرہی ہے۔ اس کے باوجود عالمی ادارے ایک انسانی بحران سے چشم پوشی اختیار کررہے ہیں جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے دعویدار ادارے دہرے معیار کا شکار ہیں اور یہی دہرا معیار بلوچ قوم پر جاری مظالم میں پاکستان کے لئے سب سے بڑی سہولت کا موجب بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ نوجوان، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو پاکستانی فوج دن دیہاڑے اٹھاکر فوجی کیمپوں میں منتقل کرکے ان کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھتی ہے۔ پاکستانی مظالم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کیمپوں میں خواتین کوجنسی غلام sex slave کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں مگر فوج کے جانب سے شدید دباؤ، خاندان کے دوسرے افراد کو قتل کرنے جیسی دھمکیوں کی وجہ سے ایسے واقعات کو منظر عام پر نہیں لایا جا رہا۔

یہ بھی پڑھیں: نور ملک – دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا بلوچ نسل کشی اب کثیر الجہتی بن چکا ہے۔ لوگوں کو اٹھانے، شدید اذیت رسانی سے قتل کرنے، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے علاوہ ایک اور پالیسی کے تحت بلوچوں کو اغوا کرکے ان سے لاکھوں اور بعض اوقات کروڑوں کی حساب سے تاوان لی جاتی ہے۔ یہ کام پاکستانی فوج بڑے پیمانے پر کررہی ہے۔ اتنی بڑی رقم ہتھیانے کے بعد بھی ان لوگوں کو لاشیں ہی دی جاتی ہیں۔ ان حالات میں عام لوگوں کے لئے مشکل بن جاتا ہے کہ وہ ان مظالم کے خلاف آزادانہ بات کرسکیں۔ اس صورت حال میں اصل حالات جاننے کے لئے اقوام متحدہ یہاں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے تاکہ لوگ اپنا مدعا آزادی سے بیان کرسکیں۔

مزید پڑھیں: ہزارگنجی حملے میں پاکستان آرمی براہ راست ملوث ہے – بشیر زیب بلوچ

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر بم حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دو دہائیوں سے جس طرح بلوچ قوم نسل کشی کا شکار ہے اسی دن سے ہزارہ برادری بھی پاکستانی درندگی کا شکار بن رہے ہیں۔ ہزارہ برادری کو شیعہ مسلک ہونے کی بنا پر نہیں بلوچستانی ہونے کی بنا پر یہ سزا دی جا رہی ہے کیونکہ لشکر جھنگوی کی قیادت پنجاب میں تخت نشین ہے اور وہاں شیعہ آبادی کو کوئی خطرہ نہیں جنکی تعداد بھی ہزارہ برادری سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس سے یہ اخذ کرنا نہایت آسان ہے کہ بلوچستان میں فرقہ واریت اور مذہبی منافرت پھیلانے کی پالیسی جی ایچ کیو میں بنتا ہے اورفوج اپنے انہی نام نہاد جہادی پراکسیوں کے ذریعے بلوچستان میں عملی جامہ پہناتا ہے۔ پاکستان کا قریبی مدد گار سعودی عرب بھی تیل کے بدلے اپنی وہابی ازم کو دوسروں پر مسلط کرنے کیلئے پاکستان جیسے کرایہ کے مہروں کو استعمال کر رہی ہے۔ اس سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان ایک تیر پہ دو شکار، یعنی ہزارہ شیعہ برادری کا قتل عام اور بلوچ جد و جہد کو کمزور کرنے سمیت بلوچستان کی روادارانہ ماحول کو مذہبی منافرت کے ذریعے پراگندہ کرنا ہے۔

آزادی پسند رہنما نے کہا کہ بلوچستان کو ایک اسلامی شدت پسندی اور بم دھماکوں کا تجربہ گاہ بنانے کیلئے پاکستان ریاستی سطح پر داعش، لشکر جھنگوی، تحریک نفاذ امن، فرقان الاسلام سمیت کئی مذہبی شدت پسندوں کو کیمپ، تربیت اور مالی تعاون فراہم کر رہا ہے۔ داعش کی بلوچستان میں موجودگی کا ہم نے بہت پہلے انکشاف کیا اور دنیا کو آگاہ کرنے کی کوشش کی تاکہ اس پر قابو پایا جا سکے مگر اُس وقت دنیا نے کوئی رد عمل نہیں دکھائی اور بلوچ قوم کو ان کا مقابلہ کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیا جس سے پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے باقاعدہ انسانی بحران جنم دیا ہے۔ اگر اس بحران پر عملی اقدامات نہ اُٹھا کر قابو نہیں پا لیا گیا تو یہ پورے جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لیکر ایک سنگین صورت اختیار کرسکتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے ایک غیر ذمہ دار ایٹمی قوت کار فرما ہے۔ پاکستان نے پہلے ہی افغانستان سمیت اپنے تمام ہمسایوں اور خطے میں اپنی جہادی اور مذہبی شدت پسندی کی پالیسی کے ذریعے ایک قابل رحم صورتحال پیدا کی ہے۔ آج دنیا پر واضح ہونا چاہیئے کہ اس ریاست کی ایٹمی سازوسامان کسی بھی وقت ان شدت پسندوں کے ہاتھ آ سکتے ہیں جنہیں پہلے ہی اسلامک ایٹم بم کا نام دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر دنیا اور خصوصاً خطے میں امن کے خواہاں بلوچ قومی تحریک آزادی کی حمایت و مدد کرکے اس خواب کو پورا کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کے انسانی بحران پر اقوام متحدہ، عالمی طاقتوں، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت تمام انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی بلوچ قوم سمیت خطے میں بسنے والے تمام قوموں کے مشکلات میں اضافے کاسبب بن رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کی جائے بصورت دیگر تاریخ کا احتساب سب کے لئے یکساں ہی ہوگا۔