شہدائے مرگاپ کا واقعہ ریاست کی جانب سے “مارو اور پھینکو “ پالیسی کی شروعات تھی اس کے بعد تسلسل کے ساتھ اسی مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت بلوچ نسل کشی میں مزید شدت اور تیزی لائی گئی
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے شہدائے مرگاپ کے دسویں برسی کے مناسبت سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 3 اپریل 2009 کو تربت سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد اور ان کے دو ساتھی لالا منیر بلوچ اور شیر محمد کو پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواء کرکے 9 اپریل کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر مرگاپ کے مقام پر مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ۔
شہدائے مرگاپ نے اپنی لازوال قربانی، جدوجہد اور قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت بلوچ قوم میں آزادی کے جذبے کو نئی روح پھونک دی۔ شہدائے مرگاپ اور بلوچستان کے دیگر ہزاروں جہد کاروں نے بلوچ قومی شناخت اور بلوچ وطن کی آزادی کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیئے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں قومی غلامی سے آزاد ہوکر اپنی سرزمین کے مالک خود ہوں۔ بلوچ روایات، زبان اور بلوچ شناخت زندہ رہ سکیں اور شہداء مرگاپ کا بنیادی فلسفہ بھی یہی تھا کہ اپنی شناخت اور وطن کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شہدائے مرگاپ کا واقعہ ریاست کی جانب سے “مارو اور پھینکو “ پالیسی کی شروعات تھی اس کے بعد تسلسل کے ساتھ اسی مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت بلوچ نسل کشی میں مزید شدت اور تیزی لائی گئی جس میں ہزاروں نوجوان، بوڑھے ، سیاسی کارکنان، طلباء، اساتذہ، ڈاکٹرز، مزدور سمیت خواتین اور بچوں کو بھی ماورائے عدالت لاپتہ کرکے اپنی ٹارچر سیلوں میں بند کیئے ہوئے ہیں اور ان میں کئی نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی پھینکی گئی ہے اور یہی تسلسل آج بھی تیزی کے ساتھ جاری ہے جہاں آج خواتین اور بچوں کی اغواء نما گرفتاریوں میں مزید تیزی لائی گئی ہے اور روزانہ بنیاد پر خواتین کو ماورائے عدالت اغواء کیا جا رہا ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ہم بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے شہدائے مرگاپ کی مناسبت کے اعلان کردہ ریفرنسز کی حمایت کرتے ہیں اور اپنے تمام کارکنان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے جانب سے منعقد کردہ ریفرنسز میں بھرپور شرکت کریں۔