ریاست کی بلوچ طلبا پر فوج کشی – نوروز لاشاری

268

ریاست کی بلوچ طلبا پر فوج کشی

نوروز لاشاری

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ طالب علم جو بلوچستان میں تعلیمی حالات ٹھیک نا ہونے کیوجہ سے گھروں سے نکلے ہیں تاکہ تعلیم حاصل کرسکیں۔ بلوچستان جنگی حالات میں ہے، وہاں طالب علموں کو مارا و اغوا کیا جارہا تھا، حالت یہ ہوگئی بلوچ قوم کی ایک نسل ریاستی قید خانوں میں قید ہوگئی یا ذہنی اذیتوں کو سہہ رہی ہے، کچھ طلباء نے جابر کے دوسرے شہروں کا رخ کیا تو وہاں بھی ان کے ساتھ بلوچستان والے حالات پیدا کیئے جارہے ہیں۔

چند دن پہلے ریاستی خفیہ ایجنسیاں و پولیس نے ذکریا یونیورسٹی ملتان کے ہاسٹلوں پر چھاپا مارا، ہر کمرے کی تلاشی لی وہاں ہر کتاب کی چھان بین کی گئی، شراب و چرس رکھنے والے طلبا کو 2,3 گھنٹے گرفتاری کے بعد بغیر ایف آئی آر کے رہا کردیا گیا جبکہ جن کمروں میں کورس سے اضافی کتابیں ملیں ان سے باقاعدہ پوچھا گیا “تم بلوچ ہو”.

کچھ عرصے پہلے پشاور یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علم، جس کا تعلق آواران سے تھا اس کو پشاور سے لاپتہ کردیا گیا۔

ڈیرہ غازی خان کے تحصیل تونسہ میں وال چاکنگ کرنے والے میڑک و ایف ایس سی کے طالب علم جن کی تعداد 15 ہے وہ بھی پچھلے 3,4 ہفتوں سے لاپتہ ہیں، وال چاکنگ “راجن، جیکب، ڈی جی خان، بلوچستان” جیسے پرانے اور مشہور نعرے کی تھی۔

کراچی یونیورسٹی کے کئی طالب علم پچھلے دنوں لاپتہ ہوتے رہے ہیں۔ جئیند بلوچ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے طالب علم تھے وہ بھی لاپتہ ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ریاستی حمایت یافتہ گینگ جمعیت کی طرف سے کئی بار بلوچ طلباء پر حملے ہوئے اب بلوچستان کا کوٹہ بھی کافی حد تک کم کردیا گیا ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچ طلبا پر لاٹھی چارج ہوتا رہا، جس کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہیں، بھوک ہڑتالیں و تمام جائز طریقوں پر عمل کیا گیا تاکہ حق حاصل کیا جاسکے۔

یہ واقعات تواتر سے جاری ہیں، طلباء کو بتایا جارہا ہے کہ تمہیں کہیں نہیں چھوڑا جائے گا تعلیم تمہارا حق نہیں ہے۔ جابر ریاست بھی اپنی شکست قبول کر چکی ہے جو معصوم لوگوں پر کاروائیاں کرکے ذہنی اذیت یا اپنی شکست کو چھپانا چاہ رہی ہے۔

بلوچ طلبا کو بھی سمجھنا ہوگا یہ ریاست تمہیں دو چار سکالرشپس دے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمہیں قبول کر چکی ہے ریاست ہر وقت غلام سمجھتی تھی اور غلام کو اس کی غلامی کا احساس دلانے کے لیئے وہ ہرحال تک جائے گی، چادر و چار دیواری کی پامالیاں، بلوچ عورتوں کا اغوا ہونا یا بزرگوں طالب علموں کو مارنا ریاست کی بوکھلاہٹ ہے اب فیصلہ طلبا کے ہاتھ میں ہے کہ یہ سب اسے سہنا ہے یا وطن سے مخلص ہوکر سرمچاروں کی قوت بننا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔