اے! میرے بلوچستان – نورا بلوچ

372

اے! میرے بلوچستان

تحریر: نورا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اے میرے وطن، میرے بلوچستان، آج دل کر رہا ہے کہ تیرے لیئے کچھ الفاظ لکھوں، لیکن دل ہی دل میں یہ ڈر بھی ہے کہ کہیں مجھ جیسا ناچیز تیری شان میں کوئی کمی نہ لکھ لے، تیری شان میں لکھنے کے لیئے مجھے وہ الفاظ ہی نہیں مل رہے جو تمھارے لائق ہوں۔

سوچ رہا ہوں اگر لکھنا چاہوں تو کس پر لکھوں؟ کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم؟ تیرے بلند و بالا پہاڑوں کی خوبصورتی کو بیان کروں یا پھر وسیع و عریض میدانوں کو، یا پھر دور دور تک پھیلے ہوئے ساحل و سمندر کو۔

تیرے دل بولان کے سنگلاخ چٹانوں اور ان چشموں کا لکھوں، جن کو دیکھ کر دل کو ٹھنڈک ملتی ہے، یا پھر تیری جان گوادر کی عظیم سمندر کی تعریف کروں جس پر ساری دنیا کی نظر جمی ہوئی ہے۔ مکران کے بلند چوٹیوں کا ذکر کروں جو جانثار سرمچارو کے قلعے جانے جاتے ہیں، یا پھر چلتن کی بلندی اور قلات اور مستونگ کے باغات کا لکھوں۔

نوشکی اور خاران کے گرم ریگستانوں کا ذکر کروں یا پھر چاغی کا جس کے زمین میں بیش بہا معدنیات چپھے ہیں، اور اسی چاغی کے سینے کو ظالموں نے کس طرح ایٹم سے توڑ دیا۔

تیرے لیئے جہد کرنے والے شہید چئیرمین غلام محمد ، شیر محمد اور لالا منیر کا ذکر کروں یا پر بی ایس او کے ان جوانوں کا جو آج بھی تیرے لیئے زندانوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں، یا پھر ان سب سے بڑھ کر تیرے ان فرزندوں کا ذکر کروں جنہوں نے تیرے لیئے پہاڑوں کو مسکن بنایا ہوا ہے۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اے بلوچستان تیری زمین کتنی زرخیز ہوگی، جس کو شہیدوں نے اپنے خون سے سیراب کیا ہے۔ ایسے جوان جن کا نام لیتے ہی آنسو ٹپکتے ہیں، ان کی قیمتی خون تیری مٹی میں موجود ہے۔ وہ چاہے قلات و خضدار سے شہید حیئ جان و امیر ملک جان کی شکل میں ہو، یا پھر زہری کا فرزند پھلین شہید ضیاہ جان ہو۔ تیری آن و رتبے کی حفاظت کے لیئے ہر کونے سے جوانوں نے سر پر کفن باندھ کر پہاڑوں کو مسکن بنایا۔

ان جوانوں میں سے میں کس کس کا ذکر کروں، میرے الفاظ ختم ہو جائینگے لیکن انکی تعریف ختم نہیں ہوگی۔ تیرے نوشکی کے فرزند حق نواز جان کا ذکر کروں یا پھر خاران کے سپوت بارگ جان کا۔ شہید نصر اللہ جان کا ذکر کروں جس نے چھوٹی سی عمر میں قربانی کا راستہ چنا، یا پھر شکور جان کا جنہوں نے کئی نوجوانوں کو درس دینے کا عہد کیئے رکھا تھا۔ شہید طارق جان اور علی جان جنہوں نے جان دیدی لیکن دشمن کے سامنے نہیں جھکے انکا بیان کروں یا پھر چیئرمین فتح جان کا ذکر کروں۔

ان جیسے ہزاروں فرزندوں نے بلوچستان تیری حفاظت کے لیئے سب کچھ قربان کر دیا۔ آج ہمارے لیئے تیری یہ مٹی جس میں ریحان جان و رئیس جان کا خون شامل ہے، خود سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ تیرے ان چشموں کا پانی جس سے شہید ضیا جان و امیر جان اپنی پیاس بجھاتے تھے، ہمیں زم زم سے بھی زیادہ پاک اور میھٹا لگتا ہے۔

میں سوچتا ہوں تیری محبت کو کس چیز سے تشبیح دیدوں، کیونکہ دل، جان، گھر، آرام و آسائش سب سے زیادہ تو عزیز ہے۔ آخر میں یہی دعا کرتا ہوں۔ اے بلوچستان تو ہمیشہ سلامت رہے ، تیری گواڑخوں کی خوشبو مدام مہکتا رہے، تیری مٹی کی پاکیزگی تاقیامت ثابت رہے۔ بیشک تیرے فرزند کبھی بھی تیرے لیئے کسی بھی قربانی سے پیچے نہیں ہٹینگے۔ کیونکہ ، ہمارا دین، ایمان، مہر و محبت سب کچھ تم ہی ہو۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔