ان الزامات کے بعد کہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہزاروں طالب علموں کو غلطی سے فیل کیا گیا تلنگانا کی ریاستی حکومت نے تمام فیل ہونے والے پرچوں کی دوبارہ سے چیکننگ کا مطالبہ کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق خود کشی کرنے والے بچوں میں نریانہ کالج کے طالب علم جی نجندرا بھی شامل ہیں۔ نجندرا نے ریاضی کے پرچے میں فیل ہونے کے بعد دل برداشتہ ہو کر اپنے ہی گھر میں خود کو پھانسی لگا لی۔
ان کے والد جی ویوک آنندا کا کہنا ہے کہ وہ ایک اچھا طالب علم تھا اور امتحانات کے نتائج نے اس کا دل توڑ دیا تھا۔
ہمیں یقین نہیں آ رہا کہ وہ اپنے پسندیدہ مضمون ریاضی میں فیل ہو گیا ہے۔ وہ بہت اداس تھا اور اس نے کھانا بھی چھوڑ دیا تھا لیکن ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی جان لے لے گا۔
خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق وی وینیلا جن کا تعلق ناظم آباد سے تھا نے دو پرچوں میں فیل ہونے کے بعد 18 اپریل کی رات کیڑے مار دوا کھائی اور اگلی صبح ہلاک ہوگئے۔
والدین اور طالب علموں کے گروپس کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد ریاستی حکومت نے تین لاکھ سے زائد فیل طالب علموں کے پرچوں کو دوبارہ سے چیک کرنے کا حکم دیا۔
تلنگانا پیرنٹس ایسوسی ایشن کے صدر این نریانا نے صحافیوں کو بتایا کہ ان امتحانات کے نتائج مرتب کرنے والی فرم گلوب ایرینا تیکنالوجیز نے ابتدا میں تسلیم کیا تھا کہ اس نظام میں تھوڑی خرابی ہے لیکن بعد میں انھوں نے کہا کہ اسے ٹھیک کر دیا گیا ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا نظام ہی خرابیوں سے بھرا ہوا ہے۔ بد قسمتی سے ان غلطیوں کی وجہ سے جو بچے فیل ہوئے وہ اپنی جانیں لے رہے ہیں۔
اس سارے معاملے کے خلاف احتجاج میں اس وقت تیزی آئی جب ایک طالب علم جی ناویا جن کو تیلگو زبان کے پرچے میں صفر نمبر دیے گئے تھے لیکن جب انھوں نے دوبارہ چیک کروانے کی درخواست دی تو ان کے نمبر 99 آئے۔
ریاست کے وزیر تعلیم جی جگدیش ریڈی نے کہا ہے کہ ’اگر غلطی ہوئی ہے تو ہم اس کے پیچھے افراد کی نشاندہی کرکے انھیں سزا دیں گے۔‘