آہ! – اشک بلوچ

772

آہ!

اشک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آہ! میں ایک عجیب تذبذب کا شکار ہوں۔ حیرانگی خود مجھ پر حیران ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ ایک قوم پچھلے 200سال سے مسلسل جنگ میں مبتلا نہیں بلکہ جنگ کرتی آرہی ہے لیکن پھر بھی زندہ ہے۔ زندگی کی تگ و دو میں برسرپیکار ہے اور المیہ یہ ہے کہ بحیثیتِ قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کب کیا کرنا ہے۔ دل اپنے قوم کے دانشوروں پر ماتم کناں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک قوم 200سالوں سے جنگ زدہ رہی ہے، پھر بھی کوئی دانشور پیدا نہیں کرسکی ہے کیونکہ بدترین حالات عظیم ذہنوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ جو میں 200سال کا ہندسہ استعمال کررہا ہوں یہ تو وہ 200سو سال ہیں، جب ایک انتہائی شاطر، کذاب اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہنری پوٹنگر اور اس کا دوست کیپٹن کرسٹی، تیسرے کو تو چھوڑ ہی دیں کہ اس کا ہدف ہم سے تھوڑا آگے افغانستان تھا آئے۔ جنہوں نے 1810میں پہلی دفعہ بلوچستان میں قدم رکھا۔ اس سے پہلے اور بعد کی کوتاہیاں، کمیاں، کجیاں اور رسوائیاں چھوڑیں۔

ان لوگوں نے آج سے دوصدیاں پہلے جو بیج بوئے تھے، وہ آج نہ صرف تناور درخت بلکہ ایک انتہائی گنجلک جنگل کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ یہی وہ بیج ہیں کہ اس قوم کو اور اس قوم کے دانشوروں کو کبھی بلوچ کلچر ڈے تو کبھی براہوئی کلچر ڈے کے نام پر نچواتے ہیں۔ کیا ہی بات ہے کہ ایک طرف ایک ماں کا لختِ جگر اپنی جدائی سے اس ماں کے کلیجے کو روز ایک تیز دھار ہارے سے چھلنی کرتا ہے اور دوسری طرف پوری قوم اپنے دانشوروں کے ساتھ کلچر ڈے کے نام پر ناچ رہی ہوتی ہے۔ اب شاید کچھ دانشوروں کو سمجھ آجائے کہ یہ کلچرے ڈے اتنی شان و شوکت اور سرکاری اعزاز کے ساتھ کیوں منایا جاتا رہا اور اگر اب بھی سمجھ آیا ہے تو پوچھا جائے کہ اتنی دیر سے کیوں؟ آخر ہم اتنے بے حس کیوں؟ آخر ہماری کھال اتنی موٹی کیوں؟ ہمارا دانشور ، دانش سے اتنا خالی کیوں؟ اور اگر اب بھی کلچر ڈے تماشا سمجھ نہیں آیا تو پھر یہ بدترین خانہ جنگی کے لیئے یہ قوم کمر کس لے کیونکہ یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری ہزاروں سالہ تاریخ میں ہمارے پاس آج تک کوئی ایک بھی تعلیمی ادارہ نہیں ہے، جو ہمیں سرکاری تعلیم دے قومی تعلیم تو دور کی بات ہے۔ ہمارے پاس علم و ودانش کے ادارے نا پید ہیں۔

ہمارا دانشور گریڈ کے نام پر لڑتا ہے، پھر کون اس قوم کو خانہ جنگی سے بچائیگا اور دوسری بات کیا میرے دانشوروں نے نہیں پڑھا کہ گلوبلائزیشن، زبان، آرٹ اور ثقافت کو ایک کموڈیٹی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ہم، ہمارے لوگ، ہماری زبانیں، ہمارے گھر بار، ہماری خاندانیں، ہمارا نسل، ہماری سانسیں سب کے سب موجودہ وقت میں کموڈیٹی بن چکے ہیں۔ ان کو کموڈیٹی گلوبلائزیشن نے نہیں بلکہ ہمارے دانشوروں، ہمارے دو ٹکے کے میروں اور ہمارے بدبخت ترین سرداروں نے بنایا ہے۔ ارے ہم تو ایک اعلیٰ اخلاقی قدروں کے مالک قوم ہیں۔ کہا گیا وہ باہوٹ والا نظام۔ آج تو ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ہمارا سردار وزارت کے لیئے اپنے قبیلے کے لوگوں کے گھروں پر چھاپے کے لیئے خود بنفس نفیس تشریف لے جاتا ہے اور بے غیرتی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے گھر کے باہر کھڑا ہوجاتا ہے اور پھر 3سال بعد اسی گھر میں وہ مسخ شدہ لاش بھی پہنچاتا ہے اور پسماندگان پر احسان بھی کرتا ہے۔ کہاں گیا وہ ضمیر؟ کہاں گئی وہ غیرت؟ ہم اس قدر گر گئے ہیں کیوں آخر کیوں؟

اب ہمیں اپنی چھوٹی دنیاؤں سے نکلنا ہوگا۔ میرے دانشور کو اب گریڈ، ذاتی واہ واہ اور طفل تسلیوں سے ہٹ کر ایک نئی دنیا آباد کرنی ہوگی۔ ایک قوم بننے کے لیئے میرے دانشور کو اب دن رات ایک کرنا ہوگا کیونکہ اب کے واسطہ پوٹنگر سے نہیں اس کے باپ سے ہے۔ پوٹنگر نے ہمیں وحشی، جنگلی، جاہل تو لکھا اس کے ساتھ ساتھ کہیں ایک دو جگہوں پر ہماری مہمان نوازی کا اعتراف بھی کیا۔ یہ خود بھی مار رہا ہے۔ وسائل بھی لوٹ رہا ہے۔ ہمارے اپنے نام نہاد سرداروں کے ذریعے روز ہمیں اذیتیں دے رہا ہے۔ اب تو سردار بنانے کی فیکٹری بھی بنا چکا ہے۔ جو صرف سردار بناتی ہے۔ جن کو قبائل نے سردار بنایا تھا وہ تو گھر دکھانے اور لاشیں لانے کا فریضہ انچام دے چکے، اب پتہ نہیں یہ فیکٹری والے سردار کیا گل کھلائیں گے۔ بس اب بہت ہوچکا۔

ہمیں بحیثیتِ قوم اپنے فرائض کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں خوابِ غفلت سے اب جاگنا ہوگا۔ ہمیں اب نظروں سے دور اور دل سے قریب، گل زمین کے سچے عاشق و دور حاضر کے سب سے عظیم شاعر ’مرید‘ کی درد بھرے لفظوں کو سننا اور سمجھنا ہوگا اور وہ لوگ جو اپنی زندگیاں ہمارے آنے والے روشن مستقبل کے لیے قربان کررہے ہیں، ان کی قربانیوں کو سمجھنا ہوگا۔ وہ جو روز اذیت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ ان کے درد کو محسوس کرنا ہوگا اب ایک حقیقی قوم بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرنا ہوگا۔ اگر اب بھی ہم بحیثیت قوم نہ اٹھے تو پھر بہت دیر ہوجائیگی۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔