میرے والد مہر گل مری چار سال ہونے کے باجود بازیاب نہیں ہوسکے ہیں- بیٹا
کوئٹہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قیادت میں لاپتہ افراد کے لواحقین کا اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے لگائی گئی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3514 دن مکمل ہوگئے بلوچستان اور سندھ سے وفد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
کیمپ میں موجود چار سال سے لاپتہ مہر گل مری کے بیٹے نے کہا کے میرے والد اتنے عرصہ گزرنے کے باجود منظرے عام پر نہیں آسکے، نہ ان پر کوئی کیس ظاہر کی گئی اور نہ انہوں نے کوئی جرم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد کو دوسرے بلوچوں کے طرح ماورائے عدالت اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا ہے جس کے لئے میں اور میری فیملی سخت سردی اور بارش کے باجود احتجاجی کیمپ میں شرکت کرتے ہیں۔
اس موقع پر کیمپ کے دورے پرآئے ہوئے وفد سے ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچوں پر مظالم میں کوئی کمی نہیں آئے گی یہاں تک اگر پاکستان بین الاقوامی معاہدہ برائے تحفظ کل اشخاص از جبری گمشدگی (ائی سی سی پی ای ڈی) پر دستخط ہی کیوں نہ کرے سفاکیت جاری رہے گی – تشدد کے خلاف معاہدہ کی توثیق کے بعد تشدد اغواء میں شہید کرنے کو بے رحمی سے جاری رکھا ہوا ہے غیر موثر بیکار معاہدات ان لوگوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے جو کہ لوگوں کو محکوم بنانے اور زمین کا استحصال کرنے پر تلے ہوئے ہوں۔ دنیا بھی ان معاہدات کو کافی سنجیدگی سے نہیں لیتی اگر ان کے نزدیک یہ کوئی معنی رکھتا تو بلوچستان میں پاکستانی مظالم پر دنیا خاموش ہیں ۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے وعدوں کی یہ رسما افتتاحی تقاریب کا حصہ ہے، تباہ شدہ بلوچ عوام کے لئے دودھ شہد کی نہروں کے وعدے آخر تک محض زبانی جمع خرچ ہی رئیں گے۔ بلوچ جو کہ 10 سالوں سے اپنے 45000 سے زائد اغوا اور مسخ شدہ لاشوں پر ماتم کررہے ہیں اور پورے 3514 دنوں سے پریس کلبوں کے باہر ہزاروں غائب افراد کے لئے احتجاج کررہے ہیں اور اس عمل کے لئے خفیہ اداروں اور فورسز کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں مگر پھر بھی ان کے اعمال کو مثبت قرار دیا جارہا ہے تو پھر اگلا قدم یہ ہوگا کہ بلوچستان میں فورسز کو اس کی سرگرمیوں کے اعتراف میں اس سال کے نوبل انعام کے لئے بطور امیدوار سرکاری سطح پر نامزد کیا جائے گا۔