کوئٹہ : بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کا احتجاجی مظاہرہ

232

فورسز کے ہاتھوں خواتین کی جبری گمشدگی کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ رکھے جانے والے خواتین و دیگر لاپتہ افراد کی گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کیا گیا-

بی ایچ آر او کی جانب سے مظاہرہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں خواتین و بچوں نے شرکت کی-

مظاہرین نے مشکے آواران سے گذشتہ دنوں فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد لاپتہ کیئے جانے والے خواتین اور دیگر لاپتہ بلوچوں کے جبری گمشدگی کے خلاف نعرے بازی کی-

مظاہرے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں، لاپتہ افراد کے لواحقین و دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی-

مظاہرین سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہمارا اج کا مظاہرہ خاص کر ان لاپتہ خواتین کے لیئے ہے جنہیں کچھ روز قبل مشکے سے لاپتہ کردیا گیا تھا، اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کے طرح جھاؤ سے بھی خواتین کو لاپتہ کردیا گیا ہے اور لاپتہ بلوچوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے، جو ریاست کے عقوبت خانوں میں بند ہیں-

مظاہرین سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ نے کہا کے بلوچستان سے خواتین کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، مشکے کے علاقے گجری میں فورسز نے گل شیر بلوچ کے گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے 2 خواتین اور دو بچوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔ اسکے علاوہ بلوچستان کے مختلف علاقوں خاص کر مکران میں فورسز کی جانب سے ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں، جہاں خواتین کو گرفتار کرکے ایف سی کیمپ منتقل کرکے مہینوں تک وہاں رکھا گیا ہے اور کئی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا کر ذہنی مریض بنادیا جاتا ہے۔

یاد رہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور دوسرے انسانی حقوق کے اداروں کا دعوی ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہے ہیں اور اس وقت تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنوں کو ماورائے آئین گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ان لاپتہ بلوچوں کی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہے جن میں سے ایک بڑی تعداد خواتین و بچوں کی بھی ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ان لاپتہ بلوچوں میں سے ابتک کم از کم پندرہ سو کی تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں لاوارث لاشیں تیرہ میل قبرستان کوئٹہ میں بغیر ڈی این اے ٹیسٹ کے دفنائی جاچکی ہیں۔