ڈویژنل کانفرنس دو سیشن پر مشتمل تھی پہلے سیشن میں پروفیسرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جبکہ دوسرا سیشن میں پروفیسر ارمان لونی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس پر مشتمل تھا جس میں ارمان لونی کی ہمشیرہ وڑانگہ لونی نے بھی شرکت کی تعزیتی ریفرنس میں مقالے پڑھے گئے اور مقررین نے پروفیسر ارمان لونی کو ان کی علمی ادبی اور تدریسی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا ۔
قبل ازیں ڈویژنل پروفیسرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر بی پی ایل اے پروفیسر آغا زاہد نے کوئٹہ ڈویژن کے پروفیسرز کو بی پی ایل اے کے اٹھائے گئے اقدامات ، کارکردگی اور دیگر امور پراعتماد میں لیتے ہوئے انہیں تفصیلی بریفنگ دی اور بتایا کہ کالج اساتذہ کی عزت ووقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا موجودہ کابینہ نے گذشتہ ایک سال کے دوران جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں ان کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسفر پوسٹنگ کے حوالے سے جب تک اصل سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے متفقہ پالیسی نہیں بنتی مسائل جنم لیتے رہیں گے جبکہ پروفیسرز کی مالی مراعات سے متعلق بی پی ایل اے کے چارٹرآف ڈیمانڈ میں شامل نکات سابق دور حکومت میں تسلیم کرلئے گئے تھے مگر تاحال ان پر عملدرآمد نہیں ہوا جو تشویشناک ہے۔
انہوں نے تعلیمی شعبے سے متعلق مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت بی پی ایل اے کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل تمام نکات پر عملدرآمد کے لئے اقدامات اٹھائے تاکہ کالج اساتذہ میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکے ۔ اس موقعے پر سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا جس میں کوئٹہ ڈویژن کے پروفیسرز نے مختلف امور پر بی پی ایل قیادت سے سوالات پوچھے جن کے جواب دیئے گئے ۔
دریں اثناء بلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن سائنس کالج یونٹ کے صدر پروفیسر سعداللہ بڑیچ و دیگر اراکین نے ڈویژنل کانفرنس کے انعقاد پر مرکزی کابینہ کو مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کااظہار کیا ہے کہ بی پی ایل اے کی مرکزی کابینہ پروفیسرز و لیکچررز کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے آئندہ بھی اسی محنت اور لگن کے ساتھ جدوجہد جاری رکھے گی ۔