غلامی کی اندھیری راتیں – میر بلوچ

620

غلامی کی اندھیری راتیں

میر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب کسی زندہ قوم کی آزاد سرزمین پر کوئی طاقتور قبضہ گیر اپنا قبضہ جما لیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس قوم کے خوشیاں غموں میں تبدیل ہوتے ہیں، لوگ غلامی کی اندھیرے میں چلے جاتے ہیں۔ اس قوم کے باسیوں کی ہنستی مسکراتی زندگی ایک عذاب بن کر رہ جاتی ہے جیسے کہ ان پر کوئی عذاب نازل ہوا ہو اور یہی عذاب ایک لعنت کی شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیکر انکی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے۔ یہ غلامی مظلوم اقوام کے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ کیا عذاب قدرت کی طرف سے مظلوموں کے لیئے ایک امتحان ہے یا سامراجی طاقتوں کا گٹھ جوڑ جس نے مظلوموں کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔

آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے کسی انسان کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ ظلم و جبر کے ذریعے کسی کی آزادی کو سلب کرے، آزادی کے بغیر زندگی کی تمام رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں، چہروں کی مسکان چھن جاتی ہے آزادی نہ ہو تو انسان کو جینے کا لطف نہیں رہتا غلامی آزادی کی ضد ہے، غلامی سے زندگی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے زندگی کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی اور ایک غلام انسان یا غلام قوم کبھی بھی کسی بھی حالت میں خوش نہیں رہ سکتا۔

آزادی کیا ہے اور آزاد اقوام میں آزادی کی اہمیت سے کوئی آشنا نہیں آزادی کی قدر و قیمت وہی جانتے ہیں جنہوں نے غلامی کی زندگی گزاری ہو اور اپنی غلامی کی زندگی سے آزادی حاصل کرنے کے لئے بےشمار قربانیاں دی ہوں۔

بلوچ قوم نے بھی اپنی سرزمین کےدفاع کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیاہے اور ہر ظالم طاقتور قبصہ گیر کے سامنے سینہ تان کر مردانہ وارمقابلہ کیا لیکن غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کیا۔ بلوچ قوم کی تاریخ کا اگر حقیقی بنیادوں پر جائزہ لیں تو ہمیں بےشمار قربانیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ چاہے وہ حمل جئیند کی شکل میں پرتگیز کے خلاف ہو یا پھر محراب خان کی شکل میں سامراج برطانیہ کے خلاف ہو۔

بلوچ قوم نے برطانیہ سے 11 اگست 1947 کو اپنی آزادی حاصل کرنے کے بعد غیر فطری ریاست پاکستان نے بلوچستان پر 27 مارچ 1948 کو بزور طاقت فوج کشی کر کے بلوچ سرزمیں پر قبصہ جما لیا اور بلوچ قوم کو اپنی ہی سرزمین میں اپنا غلام بنا دیا گیا۔ بلوچ قوم نے اس ناجائز قبضے کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی تاریخی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جنگ کا آغاز کیا۔ خان آف قلات کے بھائی میر آغا عبدالکریم نے سرلٹ کے مقام پر جاکر آزادی کے لیئے جنگ شروع کی، ریاست پاکستان نے اپنا ناجائز حربہ استعمال کرتے ہوئے قرآن پاک کا سہارہ لے کر آغا عبدالکریم کو گرفتار کیا۔

پاکستان نے بلوچستان کے سارے وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے بلوچ قوم کی نسل کشی شروع کردی، جو ہنوز شدت سے جاری ہے۔ بلوچ قوم نے اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرتے ہوئے پرکٹھن راہوں کا انتخاب کیا بہت سی تکلیفیں برداشت کرتے آئے ہیں، بہت سے ماؤں کے لعل لاپتہ کردیئے گئے، گھرکی رونقیں غائب ہوگئیں، چہرے سے مسکان چھن گئے، آنکھوں میں آنسوں کے سمندر آ نکلے، گھر میں خوشیوں کا سماں ہوا میں اڑ گیا، گھروں میں ماتم کا سماں آ کر چھا گیا۔ بلوچ ماوں کی اپنے لخت جگر کا انتظار کرتے ہوئے ایک کرب کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا کریں آزادی کی راہ ہی ایسی ہے جہاں انسان کو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔

محض سوچنے اور مانگنے سے آزادی نہیں ملتی بلکہ آزادی حاصل کرنے کے لئے مزاحمت کرنی پڑتی ہے اور مزاحمت قربانی مانگتی ہے۔ کہتےہیں کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے اور آزادی جیسی نعمت یونہی ہاتھ نہیں آجاتی ، آزادی چاہنے والوں کو بہت سے قربانیاں دینی پڑتی ہے، کئی اندھیری سیاہ راتیں بسر کرناپڑتی ہیں، تب کہیں جاکر آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے میلوں کی دشوار گذار راہ پر گزرنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکر آزادی کی منزل ملتی ہے شمع آزادی کے پروانے دیوانہ وار مزاحمت کی آگ میں جل کر خاک ہو جاتے ہیں زمین آزادی کے سینکٹروں متوالوں کے خون سے سیراب ہوتی ہے تو تبھی آزادی کی کھیت لہلہاتی ہے بہت سے گراں مایہ لعل و گہور گنوانے کے بعد ہی تو آزادی کا گوہر نایاب نعمت ہاتھ لگتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔