عورت کا کردار بازیاب کیا جائے
تحریر: عدید
دی بلوچستان پوسٹ
خالی ذہن، خالی موقف اپنے پس منظر سے آزاد ھونے کے لیے بہت سے تجزیہ نگاری کرتے کرتے غیر استدلالی سوچ کی وجہ سے اندھارہتاہے اور حقیت کے متحرک ھونے کا ادراک نہیں کر پاتا۔ جابر اپنے عمل کے نظریے کو بغیر لوگوں کے بیان کرتے ہیں، یہ عمل بنیادی واضح سچائی سے متعلق ہے۔ زبان کی سر ان عورتوں کی ٹھوس صورت حال سے ملتی جلتی ہے، جنہیں ہم صنف نازک سے مخاطب کرتے ہیں۔ عورت کو بھی مرد جیسی تعلیم دھان ھونی چاہیے۔ معاشرتی مذہب صرف وہ افسانہ نظریات اضطراب سےچمٹ جاتاہے جو تنقیدی نہیں بلکہ جبری طور پر بھی اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں.
عورت خاموش تو سرد مہر,اور اگر عصمت فروش تو رنڈی کیوں؟ عہد عصر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ زرعی انقلاب کے بعد عورت اپنے اصل مقام سے گر ہی کیا گئی کہ موجودہ جانب دار معاشرے نے انہیں گھروں تک محدود رکھا۔ ٹھیک کہتے ہیں، بے خوابی ایک نفسیاتی مرض سے آمنے سامنے ہونےکا نام ہے ہماری دلیر اور بہادر عورتوں کو بزدل خوفزدہ اور کمزور نفسیاتی عارضے میں کہر زدہ، دھند زدہ، زنجیر زن قید میں رکھاگیا ہے۔
آج یہ سمجھاجاتاہے، ایک جامع تعریف کچھ لفظوں میں اپنی سرشست میں دراصل اس قسم کے ردعمل جو کہ عورتوں کی ازادی کا ماڈل پر قدغن ثابت ہورہا ہے 8 مارچ کو یوم عالمی خواتین دن منانے والے اپنے وسیع تر مقصد کے لیئے اسے پدر سری کنٹرول میں واضح طور پر بیوی کے نام سے منصوب، مظبوط جنسی تفریق کا شکار بنائے رہتےہیں۔ اگر مہذب اقوام عالم اس بات سے ایک انا گرفتہ اظہار ذات پرمتفق ہیں کہ خواتین بڑھتی ہوئی نا برابری اور معاشی مشکلات سے دوچار ہیں تو قدیم مصر و یونان میں کبیوں کے دو طبقے اعلی اور ادنا سے لیکر دنیا,کے تمام انقلابی غیر ترقی پزیر,اور جانب دار تحریکوں سے عورتیں اکثر انقلاب سے باہر کیوں رکھی جاتی ہیں؟ گھر میں ماڈل یا پدر سری ماڈل نظریاتی طور پر قوم پرستی اور مذہبی نظم سے منسلک رکھنا ایک پرانا وطیرہ بن چکا ہے۔
عورتوں کو ماں اور بیوی کا شعوری کردار سونپ کر عورتوں کو نہ صرف خاندان سے بلکہ روایت کلچر اور مذہب سے جوڑا جاتا ہے، اس ماڈل کا تاریخی پیش رو ہم عصر انقلابی تحریکیں اور ریاستیں جنہوں نے نظریہ عورت اور حقوق نسواں کو ادارتی جزو نہیں بنایا ہے تو حرب و انتقام در حقیقت عورتوں کی تحریکوں کو ترقی پسند فطرت کا اعتراف کرنا بے سود ھوگا اور یہ بھی آزاد معشیت,اور نج کاری، برابری کے بنیاد پر اس عمل کا پر چار کرنا مشکل ہو جائیگا۔ اس سے وہ دو امیدیں پوری نہیں ہوسکتے ہیں جس کے بنیاد پرایک تو ہم ترقی پسند کہلائے اور دوسرا دنیا ہمیں ترقی پسند سمجھے اور ہماری وقفے وقفے سے ہونے والی جدوجہد ایک مربوط نظام نسوانیت اور اقوام نظریات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی سکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے وگرنا ایک زندہ زہن اور مردہ زہن میں فرق معلوم کرنے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ قومی زندگی کے موجودہ اسلوب کا ذکر ماضی کےآئینے سے ھورہا ہے یا عورتوں کو جزو ادارت کا حصہ نا بناتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی حمایت سے ہاتھ دھوبیٹھنے والے طبقات اتحاد سے کہیں دور خوفناک طاقت المرگ کا حصہ بنے جائیں۔