تعلمی اداروں میں سیاسی و شعوری پروگرامز پر قدغن کسی صورت قابل قبول نہیں – نزیر بلوچ
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین نزیر بلوچ نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے سیاسی و شعوری عمل پر قدغن اور سیاسی جدوجہد کو کمزور کرنے کے لئے طاقت کا استعمال آج کی نہیں بلکہ سیاسی عمل کے خلاف سازشیں روز اول سے جاری ہے بلوچستان میں ریموٹ کنٹرول حکومت کی طرف سے تعلمی اداروں میں سیاسی و شعوری پروگرامز پر قدغن کسی صورت قابل قبول نہیں نہ ہی ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے سیاسی و شعوری عمل میں کمزوری آئے گی-
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان بھر کے کالجز میں سرکاری سطح پر تو تعلمی عمل پہلے سے ہی سے مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی اساتذہ کی کمی غیر حاضریوں نقل کلچر کی وجہ تعلیم محض برائے نام حد تک رہ چکی تھی بی ایس او بلوچ طلباء کی اپنی مدد آپ کے تحت سیاسی تنظیمی اور تعلیمی رہنمائی کرتی آرہی ہے بی ایس او کے قومی کردار سے خائف قوتوں کو یہ بھی ہضم نہیں ہوئی اور کالجز میں طلباء کے اپنی مدد آپکے تحت ہونے والی پروگرامز پر پابندی لگانے کا اعلان کی گئی-
انہوں نے کہا کہ ایسے اعلانات کا مقصد صرف طلباء و طالبات کو خوفزدہ اور ظلم و جبر کا بازار گرم کرنے کی خاطر کی جاتی ہے تاکہ طاقت کے استعمال کو برقرار رکھ کر حقیقی مسائل پر نوجوان طبقے کو خاموش کی جاسکے بی ایس او ایک پرامن اور سیاسی عمل کے ساتھ طلباء و طالبات کے جائز حقوق اور شعوری جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے برسر پیکار ہے ایسے اعلانات سے کسی صورت کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں میں تنظیم کے شعوری پر امن جدوجہد میں کوئی کمزوری نہیں آئے گی بلکہ بھرپور علمی و قلمی طاقت کے ذریعے منفی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا جائے گا-
انہوں نے مزید کہا ہے حکومت بلوچستان کی طرف سے طلباء کے شعوری تنظیمی سیاسی بحث و مباحثے اور اسٹڈی سرکلز کے پروگرامز کے انعقاد پر پابندی کا اعلان ظاہر کرتی ہے کہ نام نہاد جمہوری دور میں بھی انسانی حقوق اور دیگر عالمی قوانین کے خلاف ورزی ہے کہ شعوری بحث مباحثے تنظیم کاری اور سیاسی سوچ پر پابندی لگانے سے فائدہ صرف انتہاء پسندی کو ہوگی علمی بحث و مباحثہ اور تنظیم کاری سماج کے بہتری اور شعوری اجاگر کرنے کے لئے اہمیت کی عامل ہے بنیادی انسانی حقوق قومی جدوجہد اور شعوری پروگرامز کے لئے کسی پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں تعلیمی اداروں کو میدان عمل اور قلم کو طاقت بنا کر ہی جدوجہد کو آگے بڑھائی جائے گی-