ترپ کا پتہ بلوچ کے ہاتھ میں – میرک بلوچ

287

ترپ کا پتہ بلوچ کے ہاتھ میں 

میرک بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

بظاہر یہ بات عجیب و غریب سی لگتی ہے کہ بھارت ایران اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہوسکتا ہے، لیکن اس انمول بے جوڑ ملاپ کی بڑی وجوہات میں مذہبی، ثقافتی، تاریخی، اسٹریٹجک وجوہات شامل ہیں۔ اسرائیلی سابقہ وزیر اعظم ایریل شیرون متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں اسرائیل کا اگر کوئی سب سے بڑا دشمن ہے تو وہ فلسطین یا کوئی دوسرا اسلامی ملک نہیں، ایران ہے۔ لیکن جس طرح سیاسیات میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، اسی طرح بین الاقوامی اسٹریٹجک روابط کوئی استخراج( deduction) آخری اور حتمی نہیں ہوتا ۔ آج اسرائیل اور بھارت کے بہت سے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا بیک وقت اسرائیل اور ایران کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اپنے ملکی مفادات کا تحفظ بھی کرسکتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ (9،10دسمبر 2003ء) کو سابق اسرائیلی وزیراعظم نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ تاہم ابھی یہ دورہ نامکمل ہی تھا کہ تل ابیب دھماکے ہوگئے اور شیرون کو واپس جانا پڑا۔ سابقہ وزیر اعظم واجپائی سے اپنی ملاقات میں سابقہ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بات کھل کر کہہ دی تھی کہ اسرائیل جو ہائی ٹیک ہتھیار اور عسکری ساز و سامان بھارت کو فراہم کررہاہے اسے خدشہ ہے کہ یہ کہیں ایران کے ہاتھ نہ لگ جائیں اور مسٹر واجپائی نے انھیں یقین دلایا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ بھارت جس طرح دو باہم دشمنوں( اسرائیل اور ایران ) کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، وہ بین الاقوامی سیاسیات اور تدبیر کاری کی ایک نہایت عمدہ مثال کہی جاسکتی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ایرانی سابقہ صدر خاتمی نے 2003ء جنوری میں بھارت کا دورہ کیا تھا اور بھارت کے ایسے دفاعی معاہدے پر دستخط کیئے تھے، جو پاکستان کے لئے حد درجہ حیرت انگیز بلکہ تشویش ناک تھا۔ اس معاہدے کی دوسری شقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ: – کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اگر بھارت کو ضرورت ہوئی تو ایران اپنے فضائی اور بحری مستکر (basses ) انڈین فورسز کو استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ اس دفاعی معاہدے کی شق صریحاً پاکستان کے بارے میں ہے کسی اور ملک کے نہیں۔ سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی تو ایران پاکستان کی مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ واقع اپنی بحری اور فضائی چھاونیوں کو انڈین ایئرفورس اور انڈین نیوی کے استعمال میں دے گا ۔ سابقہ بھارتی محکمہ خارجہ کے ترجمان امیتابھ چکرورتی نے ایران بھارت تعلقات کی نوعیت پر تبصرہ کرتے ہوئے نئی دہلی میں بتایا کہ :- ایران کو دوست بنانا بھارت کی قومی سلامتی کا اہم اور لازم عنصر ہے “-

آپ سوال کرسکتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں میں کیا قدر مشترک ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ بھارت، ایران سے تیل اور گیس خرید رہا ہے اور ایران بھارت سے دفاعی ساز و سامان، دفاعی مشینری، دفاعی ٹریننگ اور اس طرح کی دوسری دفاعی سپورٹ حاصل کر رہا ہے ۔ اور جہاں تک بھارت اور اسرائیل کے باہمی تجارت کا تعلق ہے تو اسرائیل ایک عرصے سے بھارت کو دفاعی ساز و سامان اور بھارتی مسلح افواج کو ٹریننگ دے رہا ہے۔ یعنی ایران کا ٹریننگ اور دفاعی ساز و سامان برآمد کرنا اور اسرائیل سے ٹریننگ اور دفاعی ساز و سامان درآمد کرنا بیک وقت انجام پارہا ہے۔ جیساکہ اوپر ذکر ہوا۔ اسرائیل کو صرف اور صرف اندیشہ یہ ہے کہ اس نے جو دفاعی ساز و سامان ابتک بھارت کو فروخت کیا ہے وہ کہیں ایران نہ جاپہنچے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سامان حزب اللہ اور فلسطینیوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے اور اس طرح اسرائیل کے ہتھیار خود اسرائیل ہی کے خلاف استعمال کیئے جاسکتے ہیں۔ بین الاقوامی اور اسٹریٹجک تعلقات اور مفادات کی نزاکتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہے۔

مئی 1999ء کی کارگل جنگ( جسے اصطلاح میں جھڑپ کہا جاتا ہے ) میں بھارت اور اسرائیل تعلقات گویا ٹاپ اسپیڈ پر چلے گئے، ان ایام میں ہنگامی طور پر بھارت کو جس اسلحہ اور ایمونیشن کی ضرورت تھی اس کا بندوبست جنوبی افریقہ اور اسرائیل سے ہی ہوسکا کسی اور سے نہیں۔

آج بہت سے بھارتی دفاعی ماہرین اور مشیر ایران میں موجود ہیں، جو ایران کی مسلح افواج کی ہمہ گیر ٹریننگ میں مدد دے رہے ہیں ۔ ایران کے پاس آبدوزوں کا جو بیڑا ہے اس کی تکنیکی دیکھ بھال کے لئے انڈین نیوی کے ماہرین ایران کے مختلف بندرگاہوں میں کام کررہےہیں۔ نہ صرف یہ ماہرین ان آبدوزوں کی مرمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داریاں پوری کرتی ہیں بلکہ اوورہالنگ کے مراحل میں مدد دیتے ہیں۔ ایرانی ٹینکوں کو اپ گریڈ کرنے میں بھارتی ماہرین مدد کررہےہیں، اس کے علاوہ ایرڈیفنس اور ائر بورن سہولیات سے متعلق بہت سے شعبوں میں اشتراکت و تعاون جاری ہے۔

بھارت اور ایران کو گوادر پورٹ سے بھی یکساں خطرات لاحق ہیں، بھارت یہ سمجھتا ہے کہ جب گوادر کے گہرے پانی کی یہ بندر گاہیں مکمل طور پر آپریشنل ہوگئیں تو پاکستان کی بحری قوت میں وہ افقی پھیلاو آجائے گا، جس کی اسے ایک عرصے سے ضرورت تھی اس کے علاوہ چونکہ یہ بندرگاہ چین کے تعاون سے مکمل ہورہی ہے اس لئے بھارت کو اپنے دشمن نمبر 2 سے بھی اندیشے لاحق ہیں۔ (ویسے بعض بھارتی لیڈر پاکستان کو نہیں چین کو اپنا دشمن نمبر 1 ڈکلیئر کرچکے ہیں ) دوسری بات یہ ہے کہ چین کی بحریہ کے عناصر جب گوادر آنا جانا شروع ہوئے تو مغربی ممالک کو بھی اپنے تیل کے مفادات کی فکر لاحق ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دونوں ملکر بھارت کو ایسا دفاعی ساز و سامان دے رہے ہیں جو خاص وابسطہ پاکستان ہے۔ اس ساز و سامان میں ایواکس اور پی تھری سی اورین طیارے شامل ہیں۔ اول الذکر طویل الفاصلاتی جاسوسی طیارے ہیں جبکہ موخرالذکر سمندری جاسوسی طیارے اور سروے لینس کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مستقبل میں کسی پاکستان بھارت جنگ میں بھارتی بحریہ کے طرف سے بحر ہند اور بحر عرب کے سمندری راستوں کی ناکہ بندی جو گوادر سے پہلے آسان تر تھی مشکل تر ہوجائے گی۔ چینی بحریہ کے جو جنگی جہاز اور دوسرے عناصر گوادر میں موجود ہونگے ان کے تحفظ کے لیے چین بحر ہند کے بین الاقوامی راستوں پر آمدورفت جاری رکھے گا اور اس طرح پاکستان بحریہ کو بالواسطہ سپورٹ ملے گی۔

ایران کے لیئے بھی گوادر پورٹ کی تعمیر کئی حوالوں سے ایک خطرہ ہے، اس خطرے میں دفاع اور کمرشل دونوں خطرات شامل ہیں۔ نقشے پر دیکھیئے تو آپ کو گوادر کے بالکل نزدیک مغرب میں ایران کا چابہار بندرگاہ نظر آئے گا۔ ایران اپنی بندرگاہ کو بہت تیزی سے ڈیولپمنٹ کرچکا ہے۔ افغان ایران سرحد پر ترقی دے چکا ہے اور وہ مکمل فنکشنل ہے۔

ہرات کا جو تاریخی شہر واقع ہے، وہاں کی غالب آبادی طالبان کے دور حکومت میں بھی ان کے خلاف تھی۔ آج بھی وہاں افغان کمانڈر اسماعیل کے روابط میں مذہبی عقائد بھی ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایران کی کوششیں ہیں کہ وہ ہرات کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں پاکستان، ایران، سرحد پر ایک شاہراہ تعمیر کرچکاہے۔ جو مشہد سے ہوتی ہوئی سیدھی چابہار سے ملانے والی سڑک جو پہلے سے موجود ہے اس کو مزید ڈولیپ کرچکا ہے۔ جب کہ تازہ ترین خبروں میں کہا گیا ہے اس شاہراہ پر بہت تیزی سے کام ہورہا ہے۔ اگر یہ شاہراہ مکمل ہوگئی تو وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت کی امید پاکستان نے لگارکھی ہے وہ ایران کی طرف منتقل ہوجائے گی۔

ترکمانستان کے دارلحکومت اشک آباد سے مشہد تک پہلے ہی ایک شاہراہ موجود ہے، صرف تاجکستان سے ایک سڑک چاہیئے جو اشک آباد تک لے جانے اور پھر وہاں سے مشہد اور چابہار تک جائے تو بہت آسان ہوگا۔ خبر یہ ہے کہ یہ سڑک زیر تعمیر ہے اور ایران اس پر زرکثیر صرف کرچکاہے، جب وہ مکمل ہوگی تو پھر وسط ایشیائی ریاستوں (CARS ) کو بحیرہ عرب تک پہنچنے کے لیے افغانستان کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر افغانستان بھی چاہے گا تو وہ پاکستان کے بجائے ایران کے راستے اپنا تجارتی سامان چابہار کی بندرگاہ سے منگواسکے گا۔ افغانستان میں شمالی اتحاد کا حکومت پر جو غلبہ ہے اور پھر افغانستان میں بھارت جس طرح اثر و رسوخ مستحکم کرچکا ہے اس کے پیش نظر عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں کابل کو بیجھا جانے والا ساز و سامان اور تجارتی مال و اسباب بھی کراچی کے بجائے چابہار کا رخ کریں۔

1990ء میں وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے بعد ایران نے ان ریاستوں کے ساتھ جس تعاون اور گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا وہ آج بھی ان ریاستوں کے بیشتر لیڈروں کو یاد ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وسط ایشیائی ریاستوں( CARS ) کے ثقافتی، لسانی اور مذہبی رشتے جس طرح ایران سے استوار ہیں، اس طرح پاکستان کے ساتھ نہیں اور نہ ہی پاکستان نے ایسا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایران اور بھارت کا تعاون زیادہ نظر آتا ہے۔

بھارت کسی زمانے میں اسرائیل کا بڑا دشمن شمار ہوتا تھا، ایک عرصے تک اس نے بعض عرب ممالک کو اپنے غیر جانبداری کے سحر میں گرفتار کیئے رکھا لیکن وہ اب کھل کر اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت نہیں کرتا۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت اسرائیل اور ایران تعاون جو آج نظر آرہا ہے آنے والے کل میں زیادہ مضبوط، زیادہ گہرا ہوگا۔

1980ء کی دہائی میں ہی USA کے مشہور دانشور صحافی سلیگ ایس ہیرسن نے اپنی تحقیقی کتاب in the Afghanistan shadow میں پر مغز تجزیے میں اس ریجن کو پر خطر علاقوں میں سے حساس ترین قرار دیا تھا اور ساتھ ہی مستقبل میں رونما ہونے والے امکانات کو بھی ظاہر کیا تھا۔ اس وقت افغان ثور انقلاب کے استحکام کے لیئے سویت یونین افغانستان میں موجود تھی ۔ دوسری جانب USA سعودی عریبیہ، چین وغیرہ پاکستان کی فوجی حکومت کے تواسط سے رجعتی مذہبی عناصر کو مالی اور جنگی اسلحہ کے ذریعے افغانستان میں ایک غیر اعلانیہ جنگ کررہے تھے۔ افغان ثور انقلاب کی کامیابی اور استحکام کے لیے ساری دنیا کے ترقی پسند اور مظلوم و محکوم طبقات و قومیں کوشاں تھیں۔ یہ دور سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا۔

آج کی صورتحال اس دانشور کی پیشن گوئی کی مکمل عکاسی کررہی ہے، ایک بار پھر کہنے دیجیئے کہ طالبان اور USA کے درمیان مذاکراتی عمل USA کی مرضی کے مطابق ہورہے ہیں۔ ان مذاکرات کے بعد طالبان کی ہیت تبدیل ہو گی۔ اور پھر یاد رہے ہندوستان USA اور اسرائیل کے درمیان گہرے معاہدے اور تعلقات ہیں، چین، ہندوستان، برازیل، روس، اور جنوبی افریقہ بیرکس بینک کے حوالے سے پہلے ہی سے باہم مربوط ہیں، روس اور ہندوستان کے تاریخی معاہدے الگ سے موجود ہیں۔ چین اور ایران، افغانستان میں مشترکہ مفادات رکھتے ہیں۔ چابہار بندرگاہ جو مکمل ہے اور وسیع شاہراوں کے ذریعے افغانستان سے ہوتا ہوا وسط ایشیا سے مل چکا ہے لہٰذا گوادر بندرگاہ جو چین کے لئے دلچسپی کا ذریعہ تھا، رفتہ رفتہ چین کے لئے درد سر بنتا جا رہا ہے۔

مثلا صرف سعودی عریبیہ کی پریشانی جوکہ ایران کے حوالے سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور UAE ایران پر دباؤ ڈالنے عجلت میں پاکستان کو تھوڑی توجہ دے رہا ہیں۔ لیکن مستقبل قریب میں یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا، کیونکہ ہندوستان USA اور یورپ کے سعودی عرب دیگر ملکوں کے ساتھ انتہائی گہرے معاہدے و تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں سال گذشتہ میں سعودی عرب نے USA ہندوستان کے توسط سے اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات بھی کئے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک نے OIC کے گذشتہ اجلاس میں پاکستانی خواہش کے برخلاف کشمیر حوالے سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔

مستقبل اب واضح طور پر پاکستانی ریاست کے خلاف ہوتا جارہا ہے، خطے کے سارے اسٹاک ہولڈر ایک ساتھ ہونے جارہے ہیں۔ بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک کے بدولت بلوچ اس خطے کا اہم ترین اسٹک ہولڈر ہے۔ اب مستقبل قریب میں “ترپ کا پتہ بلوچ کے ہاتھ میں ” ہوگا قدرت اور بدلتے ہوئے حالات نے بلوچ قومی آزادی سے وابسطہ رہنماؤں اور پارٹیوں کو شاندار موقع فراہم کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ رہنما اور پارٹیاں اس موقع کو بھی گنوادینگے یا موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ہاتھ میں آئے ہوئے ترپ کے پتے کا صحیح استعمال کرینگے، اب یہ ان کی ہمت اور دانائی کا امتحان ہے۔ ورنہ احتساب کے لیئے تاریخ اپنی باہیں پھیلائے استادہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔