بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ پارٹی کے سابق انفارمیشن سیکریٹری اور عظیم دانشور و صحافی حاجی رزاق بلوچ کے گھر پر چھاپہ اور بلوچ طلباء کو حراست میں لے کر لاپتہ کرنا انتہائی قابل مذمت ہے ۔
ترجمان نے کہا کہ قابض ریاست گذشتہ کئی عرصے سے اجتماعی سزا کے جارحانہ اور غیر انسانی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس پالیسی کے تحت عظیم شہداء کے اہلخانہ اور رشتہ داروں کو نشانہ بنایا رہاہے۔ بلوچ شہدا کے گھروں پر چھاپے اور بلوچ طلبا کی حراست اور گمشدگی بلا تعطل جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ حاجی رزاق بلوچ کے گھر پر چھاپہ اور اسی رات بلوچ طلبا شئے مرید ولد نزیر احمد اور اس کے بھائی نسیم بلوچ اور کزن بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم سلمان خورشید ولد خورشید احمد ساکنان نذر آباد تمپ اور بے نظیر یونیورسٹی کے طالب علم اشفاق احمد سکنہ آواران کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہداء کے اہلخانہ کو اذیت سے دوچار کرنے کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کیلئے تعلیم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ کراچی، پشاور، لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں بلوچ طلبا پر حملے یا ان کی گرفتاری اس کی واضح مثالیں ہیں۔ کراچی سے بلوچ طلباء کی گرفتاری اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ اس سے پہلے کراچی ہی سے بی ایس آزاد کے رہنما طالب علم ثنا بلوچ کو قابض فورسز نے ساتھیوں سمیت اغوا کرکے لاپتہ کیا جو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود لاپتہ ہیں۔
ترجمان کے مطابق چھاپے کے دوران فورسز نے بی این ایم کے شہید رہنما حاجی رزاق کے گھر پر لوٹ مار کے علاوہ توڑ پھوڑ کرکے گھر اجھاڑ دیئے ۔
انہوں نے کہا کہ حاجی رزاق ایک عظیم دانشور، مدبر اور بلند پایہ کے صحافی تھے اور پارٹی کے مرکزی عہدیدار تھے۔ انہیں قابض نے دوران حراست انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا اور تشدد کے ذریعے شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاش کراچی ہی میں پھینک دی، جسے شناخت کرنے میں اہلخانہ کو دو دن لگے۔
ترجمان نے کہا شہدا اور اسیر رہنماؤں کے گھروں اور مقبروں کی بے حرمتی اور مسمار کرنا پاکستانی فوج کے روز کا معمول حصہ ہیں۔ شہید غلام محمد، ڈاکٹر دین جان، استاد علی جان سمیت کئی رہنماؤں کے گھر اور مقبرے پاکستان کی غیرانسانی وحشت و بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ فرزندوں کے ماورائے عدالت حراست نے ایک سنگین شکل اختیار کی ہے۔ متاثرین کے خاندان کوئٹہ میں برف، بارش اور سخت سردی کے موسم میں بھی احتجاج پر مجبور ہیں تاکہ اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کو یقینی بنا سکیں مگر لاپتہ افراد کو رہاکرنے کے بجائے مزید لوگوں کو حراست میں لے کر اذیت خانوں میں منتقل کیا جا رہاہے۔ اس بہیمانہ اور غیرانسانی عمل میں ریاست کے تمام ستون بشمول انسانی حقوق کے ادارے و سول سوسائٹی برابر کے شریک ہیں۔
آخر میں ترجمان کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ مہینوں میں بلوچ طلبا کی فورسز کے ہاتھوں گمشدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ کراچی کا واقعہ، پشاور سے سرفراز بلوچ، اس پہلے کوئٹہ سے جئیند اور اس کے کمسن بھائی حسنین بلوچ کی گرفتاری کے بعد لاپتہ ہونا طلبا پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی کوششیں ہیں۔