لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3516 دن مکمل

264

لاپتہ نواب بلوچ کے والد کا لاپتہ افراد کے کیمپ آمد بیٹے کی رہائی کی اپیل

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جانب سے لگائے گئے لاپتہ افراد کے لواحقین کے علامتی بھوک ہڑتا کیمپ کو 3516 دن مکمل ہوگئے، آج بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

دو سال سے لاپتہ نواب بلوچ کے والد نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں شرکت کی اور حکومتی اداروں سے اپیل کی کہ ادارے انکے بیٹے کی بازیابی میں کردار ادا کریں۔

نواب بلوچ کے والد کے مطابق انکے بیٹے کو خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے انکے سامنے اٹھا کر لے گئے، جسے 2 سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود منظرعام پر نہیں لایا جارہا اور نا ہی انہیں بتایا جارہا کہ انکا بیٹا کہاں ہے اور اسکی غلطی کیا ہے جس کی وجہ سے وہ شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کے لئے المیہ اور درد صرف لاپتہ افراد یا شہداء کی ہی نہیں بلکہ بلوچوں کے تین نسلوں کی صلاحیتوں اور مواقع سے مکمل محرومی کا سانحہ بھی یکساں طور پر شدید تکلیف دہ ہے۔ بلوچ کو اس بات پر قصور وار نہیں ٹہرایا جاسکتا کہ وہ مزید اس بات پر یقین نا کریں کہ انتخابات اور آئین انکے مسائل کا حل ہے۔ اسلام آباد اور کوئٹہ میں منتخب حکومتیں تو موجود ہیں لیکن بلوچوں کے خلاف مظالم مشرف کے آئینی حکومت کے دؤر سے بھی زیادہ بھیانک روپ کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ گذشتہ 70 سالوں میں بلوچوں نے پانچ فوجی آپریشنوں کے مار جھیلی ہے، یہ سب منظور شدہ آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہوئی ہے۔ مشرف کی عدالتی طور پر منظور اقتدار کے بعد ہزاروں بلوچ لاپتہ ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہید ہوئے، ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ وہ علاقے جہاں عوام فوج اور ایف سی کی آمرانہ تسلط کے تحت رہ رہے ہیں، وہاں چیک پوسٹوں پر معمول کی ذلت آمیز تلاشی اور گھروں پر چھاپے بھی آئینی بالادستی کا حصہ ہیں۔ بلوچوں کے لئے کوئی چیز تبدیل نہیں ہوئی اور نا ہوگا وہ فوج اور سویلین حکمرانوں کےحکمرانی میں یکساں طور پر مصائب کا شکار رہے ہیں۔ 25 مارچ 1971 کو بنگالیوں پر فوجی کریک ڈاؤن بھی آئینی تھا، یہاں کبھی بھی کوئی کام آئین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں کیا گیا، جوکہ مضحکہ خیز حد تک فوج کی خواہشات اور پالیسیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔