کوئٹہ: اکادمی ادبیات کی جانب سے عطا شاد کی یاد میں ادبی نشست

682

بلوچستان میں علم و ادب اور سخنوری کی تاریخ عطا شاد ؔ کے تذکرے کے بغیرنا مکمل ہوگی ، عطا شاد بیک وقت ایک استاد ، ایک دوست او ر ایک بڑے بھائی کے حیثیت سے ہمیں علمی اور ادبی سطح پر رہنمائی فرماتے رہے ۔ عطا شاد شناسی اب ہمارے لئے ایک موضوع بن چکا ہے – عطاشاد کے حوالے سے تقریب میں مقررین کا اظہار خیال

بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ جہاں بہار کی آمد کا سندیسہ آتا ہے وہاں بلوچستان کے ذر خیز ذہنوں ، علمی ادبی حوالوں سے لازوال کردار ادا کرنے والے بہت سے نامور شخصیات کے بچھڑنے کا مہینہ بھی قرار پاتا ہے جن پر مختلف حوالوں سے گفتگو کااہتمام کیا جاتا ہے علمی ادبی مباحث ہوتے ہیں جن میں بلوچ اکابرین کی علمی ،ادبی کارناموں کاذکر سامنے لایا جاتا ہے اور آنے والے تاریخ کے لئے مثالیں دی جاتی ہیں۔اسی حوالے سے اکادمی ادبیات کوئٹہ کے زیر اہتمام نامور شخصیت ،خوبصورت شاعر اور دانشور عطا شاد کی یاد میں ایک ادبی نشست کا اہتما م کیا گیا نشست کی صدارت تربت یونیورسٹی کے وائس چانسلر نامور ادیب دانشور ڈاکٹر عبدالرزاق صابرؔ نے کی۔

عبدالرزاق صابرؔ نے عطا شاد سے اپنے تعلق اور عطا شاد کی شعری تخلیقات کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ بلوچستان میں علم و ادب اور سخنوری کی تاریخ عطا شاد ؔ کے تذکرے کے بغیرنا مکمل ہوگی وہ ثقافتی ، سیاسی اور سماجی روایت کے نباض تھے ان کی تخلیقات خصوصاً شاعری میں ہمیں اس خطے کے سارے رنگ بڑی خوصبورتی اور عرق ریزی کے ساتھ ایک بڑے پھیلاؤ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ عطا نے حسن و جمال اور جبر و استحصال کو اپنی علامتوں اور استعارات میں برے موثر انداز میں بیان کیا۔ عطا شادؔ آج ہمارا حوالہ بن کر درخشاں حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔ عطا شاد شناسی اب ہمارے لئے ایک موضوع بن چکا ہے اس حوالے سے ان کی اردو اور بلوچی کلیات کی اشاعت عطا شاد فن اور شخصیت کے حوالے سے شائع ہونے والی کتابیں اور ایم فل ، پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس کا عطا شاد کے حوالے سے تحقیقی مواد اس بات کو واضح کرتا ہے کہ عطا شا د اب بلوچستان میں شعر ، سخن اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے ایک حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ہمیں ان کے تراجم کو آگے دنیا کے دیگر زبانوں میں متعارف کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر عطا شاد نے ہمارے لوک ادب اور رومانوی داستانوں کوجس خوبصورتی سے نئے قالب میں ڈھالا اس کا حوالہ عطا شاد کی علمی ، ادبی خدمات کو ایک کثیر المثال حیثیت دینے کے لئے کافی ہے ۔‘‘

نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے نامور دانشور ادیب وحید زہیر ؔ ، ڈاکٹر علی دوست بلوچ ، نور خان محمد حسنی ، محسن بلوچ ،اصغر رخشانی اور دیگر نے عطا شاد فن اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ۔وحید زہیرؔ نے عطا شاد سے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عطا شاد بیک وقت ایک استاد ، ایک دوست او ر ایک بڑے بھائی کے حیثیت سے ہمیں علمی اور ادبی سطح پر رہنمائی فرماتے رہے ۔ان کا شعری ذوق ہمیں حوصلہ دیتا رہا ہمارے اندر عطا شاد کی طرح آگے بڑھنے اور محنت کرنے کی لگن پیدا ہوئی آج اُن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ ہم نے اپنے اکابرین کی عزت کی ، احترام کیا اور اُن سے فن اور فکر کے کئی مثبت پہلوحاصل کئے توقع ہے کہ آج کی نسل بھی اس رویئے کو اپنائیگی اور عطا شاد شناسی کے اس کارواں میں ہمارا ساتھ دیگی۔

اس موقع پر نور خان محمد حسنی نے کہا کہ ’’عطا شادؔ سوچتا بلوچستان ، بولتا بلوچستان اور مجسم بلوچستان ہے وہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں اپنے خیالات کا اظہار کرتے وقت احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ اس لئے اس نے اظہار کے لئے اشارہ کنایہ ، موسموں ، پہاڑی جھرنوں، برف ، آئینہ ، آفتاب ، چاندنی ، موم ، کوہسار ، رات ، چشمہ ، آنکھ ، دھنک،شبنم، الاؤ، تیرگی ، سورج ، ماہتاب، آتش گہہ ، دھوپ ، سبزہ ، آگ ، سردی ، گرمی ، پتھر ، موج کی آہنی دیوار ، سنگ سدا ، سرد پتھر ، برف کی کلیاں ،برفاب ، آب، ہوا ، سراب ، اجالے ، صحرا ، آسمان ، دشت ، سمندر ، آبشار جیسے مانوس او رنامانوس استعارے کثرت سے استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں جابجا برف ، سردی ، سرد، پتھر ، برفاب ، زمستان کے الفاظ کمال ہنر مندی سے بروئے کارملتے ہیں جن میں شعری حسن کے ساتھ نئے شعری اظہار کے نئے در وا ہوتے ہیں ۔ نشست کے اختتام پر اکادمی ادبیات کی جانب سے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے افضل مرادؔ نے کلیات عطا شاد کی اشاعت اور اُس کے حوالے سے عطا شاد کے احباب کاشکریہ ادا کیا ۔اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ عطا شاد کو یا د کرنے والے اس کا مطالعہ کرنے اور اس کا حوالہ دینے والے بڑی تعداد میں ہمارے درمیان موجود ہیں جو ہمیں ایک نئی امید دکھاتے ہیں آخر میں انہوں نے عطا شاد کی چند نظمیں پیش کیں۔