,ملٹری ریاست، اسد مینگل اور احمد شاہ
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مصنوعی ریاست پاکستان کے بننے سے لے کر آج تک جس طرح جھوٹ عوام کے ذہنوں میں ٹھونسا گیا ہے اور جس حد تک جہالت کو پھیلایا گیا ہے اس کے نتیجے میں عوام کی ذہنی حالت بد سے بدتر ہورہی ہے۔
تاریخی طور پر جب پاکستان میں دور حکومت کو مارشل لاء یا جمہوریت کے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے تو یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ جمہوری ادوار میں وہ کونسے جمہوری رویے تھے جنہوں نے پاکستان کو کنفیڈریشن بنانے کی کوشش کی بلکہ یہ واضح ہے کہ ڈمی جمہوریت بھی بدترین آمریت ہی ثابت ہوئی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو جس طرح جمہوریت کا چیمپیئن بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے جمہوریت کا کیا معیار ہے۔
نوآبادیاتی پالیسیوں میں مسنگ کا لفظ اس وقت سننے میں آیا جب 6 فروری 1974 کو بلوچ نیشنلسٹ رہنما سردار عطا اللہ مینگل کے فرزند اسد اللہ مینگل اور ان کے ساتھی احمد شاہ کرد کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے اغوا کیا اور آج تک ان کا کوئی پتہ نہ چلا کہ زندہ ہیں یا مارے گئے۔ اگر زندہ ہیں تو کس حالت میں اگر مارے گئے تو کم۔از کم ان کے قبروں کا پتہ بتایا جاتا۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو بھٹو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے بطور ریاستی آلہ استعمال کرتے تھے اور بلوچستان میں جاری اس وقت انسرجنسی کے حوالے سے بھٹو نے بلوچوں کو مٹانے کی دھمکی دی تھی۔
اسد اللہ مینگل اور احمد شاہ کرد کے اغوا نما گرفتاری کے بعد یہی سلسلہ 2000 میں اٹھنے والی تحریک کے خلاف ریاست کا ایک موثر ہتھیار بن گیا۔ جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی جمہوریت میں یہ سلسلہ کافی آگے بڑھا اور نواز لیگ کے دور میں بھی یہ انسانی بحران شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ جتنے بھی پیکجز کے اعلانات کیے گئے ان کے نتیجے میں جبر بڑھتا ہی چلا گیا۔ باشعور بلوچ نوجوانوں کو اغوا کرنا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں روز کا معمول بن گئی۔
کسی بھی سیاسی پارٹی نے اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر اٹھانے کی کوشش نہیں کی اور اس سے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا چلا گیا۔
اس حوالے سے ایک موثر سیاسی لائحہ عمل درکار ہے لیکن بلوچ سیاسی حلقوں کی غیر سنجیدگی باعث اس طرح کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
بھٹو کی جمہوریت سے لے کر نواز کی جمہوریت اور اب عمران خان تک سب کچھ ماسوائے ایک نوآبادیاتی دھوکا کے کچھ نہیں، موجودہ دورانیہ میں اگر 1 بندہ کو ریلیز کیا بھی گیا ہے تو اس کے نتیجے میں 10 اور غائب ہوتے ہیں۔
پاکستان ایک ملٹری ریاست ہے جہاں سیاسی رویوں کی کوئی گنجائش نہیں، منظور پشتین ریاست کو چیلنج نہیں کرتا لیکن پھر بھی اسے ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ نوآبادکار کی ذہنیت ہے کہ وہ کسی صورت دیسی کو اپنے برابر کا تصور نہیں کرسکتا اور جب تک بلوچ، سندھی اور پشتون اس ریاست کے جبر تلے ہیں تب تک کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
مظلوم قوموں کو اپنے نجات کے لیے ایک لمبی مزاحمتی جدوجہد تشکیل دینا ہوگی تاکہ آئندہ نسلوں میں مسنگ کا لفظ ہی مسنگ ہوجائے نہیں تو اس ریاست سے خیر کی توقع رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔