پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ عمران خان نریندر مودی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے اور امن کی دعوت دینے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا مودی بھی اس پر تیار ہیں؟
شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ اگر گرفتار بھارتی پائلٹ ابھے نندن کی واپسی سے کشیدگی کم ہوسکتی ہے تو پاکستان اس پر بھی غور کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے خطے میں جاری کشیدگی سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا بھی خیرمقدم کیا اور کہا کہ پاکستان کشیدگی میں کمی کے لیے عالمی برادری کی کوششوں میں مکمل تعاون کرے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہنوئی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کےد رمیان جاری کشیدگی جلد ختم ہونے کی امید ہے اور امریکہ اس سلسلے میں اپنی کوششیں کر رہا ہے۔
ٹی وی چینل سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ عادل الجبیر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کم کرانے کے لیے پاکستان آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سے کئی دیگر ملکوں کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ حکام نے بھی بات کی ہے اور پاکستان کی خواہش ہے کہ عالمی برادری صورتِ حال کی سنگینی کم کرنے کے لیے آگے آئے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم ‘او آئی سی’ کے کشمیر سے متعلق وزارتی اجلاس میں بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو شرکت کی دعوت دینے سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر یہی حالات جاری رہے تو وہ ‘او آئی سی’ کے اجلاس میں سشما سوراج کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بھارتی وزیرِ خارجہ کے ساتھ ملاقات سے انکاری نہیں لیکن ‘او آئی سی’ اس ملاقات کا فورم نہیں ہے۔
شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ وہ ‘او آئی سی’ کے اجلاس کی صرف اس نشست میں شریک نہیں ہوں گے جس میں سشما سوراج کو دعوت دی گئی ہے اور اس کے علاوہ ان کے بقول وہ تنظیم کے تمام اجلاس میں شرکت کریں گے۔
‘او آئی سی’ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس یکم اور دو مارچ کو متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ہوگا جس کے افتتاحی اجلاس میں بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج بھی شریک ہوں گی۔
سشما سوراج کو اجلاس میں شرکت کی دعوت میزبان ملک متحدہ عرب امارات کی حکومت نے دی ہے جس کے بھارت سے قریبی تعلقات ہیں۔
لیکن پاکستان اور بھار ت کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کے تناظر میں بھارتی وزیرِ خارجہ کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ارکانِ پارلیمان نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور حکومت سے اجلاس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔