توار کی توار خاموش کیوں؟ – برزکوہی

406

توار کی توار خاموش کیوں؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

سینئر صحافی، ادیب و شاعر ڈرامہ نگار اور ایڈیٹر توار خادم لہڑی صاحب کی جانب سے گذشتہ دنوں بلوچ قوم کے نام ایک افسوس ناک پیغام نظروں سے گذرا، میں اس پیغام کو افسوسناک اس لیئے کہوںگا کہ درجن بھر قوم پرست پارٹی لیڈروں، ہزاروں کارکنان اور لاکھوں تحریک کے ہمدردوں کے بیچ ایک اخبار نہیں سکا، اور بار بار بحرانوں کا شکار ہوتے ہوتے آخر کار بند ہوگیا۔ پھر یہاں متذکرہ لیڈر و کیڈر بہمراہ ہمدرادان کے ریاست کاری کے صلاحیتوں پر سوالات و شبہات اٹھتے ہیں؟ مگر اہم سوال یہ ہے کہ بقول ایڈیٹر صاحب کے 2004 سے بلوچ قوم “توار اخبار” کو مالی و اخلاقی سپورٹ کررہے تھے اور توار بھی کامیابی کی جانب گامزن تھی، بالکل اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرتا کہ توار اخبار بلوچ نوجوانوں میں ایک سیاسی و فکری شعور بیدار کرکے کئی اچھے اچھے کالم نویس اور صحافی پیدا کرنے میں کامیاب ہوا، یعنی پورا ایک نظریاتی و فکری کھیپ اس دوران تیار ہوا، اسی لیئے پاکستان ریاست کے ساتھ ساتھ نام نہاد قوم پرست بھی اس اخبار سے خائف اور سیخ پا تھے۔

مگر اہم سوال یہ ہے کہ اتنے برس اگر بلوچ قوم توار اخبار کو مالی اور اخلاقی مدد و کمک کرکے چلاتے رہے، اور پاکستان کے اشتہارات کا محتاج ہونے نہیں دیا، تو اب کیوں وہ بلوچ قوم کی اخلاقی و مالی سپورٹ کیلئے سسک کر مرگیا؟ اس کے بنیادی وجوہات کیا تھے اور کیا ہیں؟ وہ پالیسی، وہ پروگرام، وہ طرز صحافت کیا تھا جس نے توار جیسے اخبار کو دیوالیہ کردیا؟

اس تناظر میں بہت سے حقائق کی لڑی پروئی جاسکتی ہے لیکن کیا سب سے اہم عنصر توار اخبار کی جانبدارانہ پالیسی نہیں تھی؟ شکر ہے دیر آئد درست آئد، حقیقت پسند بن کر اس حقیقت کا ادراک آج خود توار کی ایڈیٹر خادم صاحب کھلم کھلا اعتراف کررہے ہیں کہ توار اخبار 2011 کے بعد جانبدار رہا ہے، تو کیا اس جانبداری کی بنیاد پر توار اخبار سے بلوچ قوم کا مالی و اخلاقی سپورٹ ختم ہوگیا؟ کیا جس پالیسی، سوچ، طرز فکر کی توار تبلیغ و ترجمانی 2011 سے کرتا آرہا تھا وہ بلوچ قوم کے لیئے قابل قبول نہیں ہوسکا؟ جس کی بنیاد پر توار بندش کا شکار ہوگیا؟ اتنے عرصے تک جب توار جانبدار رہا، تو وہ کس کی جانب کیوں جانب دار رہا ہے؟ اس کے وجوہات کیا تھے؟ خوف، لالچ، دباو، مرضی، شعوری و لاشعوری یا دانستہ و غیر دانستہ غلطی وجہ کیا تھی؟ اس کی وضاحت ہوسکتا ہے یا ازلہ ہوسکتا ہے؟

پیشہ صحافت یا صحافی کا معاشروں اور اقوام میں اپنا ایک الگ مقام ہوتا ہے، حقیقی صحافی کسی بھی صورت میں کسی بھی دباو اور حالات کے شکار نہیں ہوتے بلکہ بلاججھک، بلاخوف، بغیر لالچ کے غیر مصلحت پسندی کے شکار ہوکر حقائق اور غیرجانبداری کی بنیاد پر اصل حقائق کو عوام اور دنیا کے سامنے طشت ازبام کرکے اپنی قومی، انسانی اور اخلاقی ذمہ دارایوں کو مخلصی، بہادری اور ایماندارانہ طریقہ سے نبھاتے ہیں۔

شاید آج بھی صحافت کی صحرامیں ایسے بھی تلخ حقائق موجود ہیں، جو گارشیا مارکیز اوریا فحلاشی اور دیگر عظیم صحافیوں کی روح کو ٹھیس پہنچاتی ہیں۔

توار اخباراشاعت سے ہی تحریک نمائیندہ اخبار کی صورت میں اس تاثر کے ساتھ ابھرا کہ یہ بلوچستان اور بلوچ تحریک کے ان حالات اور خبروں کو سامنے لائیگا جو سنسرشپ اور پابندیوں کا شکار ہیں۔ اس اخبار کو غیرجانبداری کے ساتھ بلا تفریقِ گروہ، پارٹی بازی، علاقہ پرستی بلوچ قومی تحریک کے تمام اسٹیک ہولڈروں کی نمائیندگی کرنی تھی، اسی لیئے اس کی کامیابی میں بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ تمام تحریک اسٹیک ہولڈروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہ مدد صرف مالی نہیں تھی، اخبار کی ایڈیٹنگ، تحاریر، اشاعت و سرکولیشن ایک مشترکہ کاوش کا نتیجہ تھا۔

یہی مشترکہ کاوشیں ہی اخبار کی کامیابی کا راز تھیں لیکن اس امر کو پس پشت ڈال کر توار کو تحریک کے اندر موجود ایک مخصوص اجارہ دار گروہ و سوچ کے زیرنگین کرکے، اسے جانبدار بنادیا گیا اور پھر اسی اخبار سے برچھے ان قوتوں پر برسائے گئے جنہوں نے خون پسینہ اس کی تعمیر و بنیادوں میں دھان کیا تھا۔ پھر نتیجہ کیا ہوا، سب ایک ایک کرکے پیچھے ہٹے، پہلے توار نے سرکولیشن کھوئی، پھر لکھاری کھوئے، پھر قاری کھوئے، پھر کاغذی اشاعت کھوکر آن لائن ہوگئی اور بالآخر آن لائن اشاعت کھوکر ایک سال سے زائد عرصے سے بند پڑی ہے۔

آج خادم صاحب جب دوبارہ اخبار کو کھولنے کیلئے مدد کی کھلی اپیل کررہے ہیں تو پھر کیا انہیں اس امر کا ادراک ہے کہ توار بند ہی کیوں ہوئی تھی؟ وہ مالی مسائل کا رونا روکر مدد کی اپیل کرسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ توار کی بندش کی وجوہات مالی مسائل سے کئی گنا زیادہ گہری ہیں اور اس کی بنیاد و ام المسائل جانبداری تھی۔ اور یہ جانبداری لندن سے ابھری محدود سوچ کے اس فسطائی ڈاکٹرائن کا حصہ ہے جس کا لب لباب ہی یہی ہے کہ ” جو میرے راستے نہیں، وہ سب غلط اور سب کو ختم ہونا ہے۔” اور توار اسی سوچ کے سمت جانبدار رہا اور زیر نگین رہا۔

کیا آج خادم صاحب اور توار اخبار خود کو اس کنٹرول اور جانبداری سے آزاد کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد کھلی مدد کی اپیل کررہے ہیں؟ کیا آج بھی وہ جانبدار نہیں ہیں؟ ماسوائے خادم صاحب کے دعووں کے زمینی حقائق میں تو کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی، آج بھی اس امر کے واضح علامات ظاھر ہیں کہ توار کہاں سے کنٹرول ہے اور اسکی جانبداریاں کہاں ہیں، پھر ایسی حالت میں توار کے غیرجانبداری کے دعووں میں کتنی صداقت و مضبوطی باقی رہتی ہے۔

یہاں سب سے بڑا خدشہ یہ موجود ہے کہ کیا واقعی یہ فیصلہ کہ توار غیرجانبدار رہیگا اور عوام سے کھلی مدد کی اپیل کی جائیگی توار کی ایڈیٹوریل بورڈ کی ہے، یا توار کے ساکھ کو بحال کرکے، اسکے ذریعے ایک مخصوص شخص و گروہ کے ساکھ کو بحال کرنے کیلئے یہ فیصلہ کہیں اور سے آیا ہے؟ بہرحال یہاں شکوک و شبہات اور گمان بہت ہیں اور انکا جواب محض مکمل غیرجانبدار عملی کارکردگی ہے۔

اس امر سے ہرگز انکار نہیں کہ تحریک کو ایک نمائیندہ اخبار کی ضرورت ہے، جو غیرجانبداری سے بلاتفریق کلی طور پر تحریک کی نمائیندگی کرے۔ اگر یہ کردار توار احسن طریقے سے ادا کرسکتا ہے تو یہ نیک شگون ہوگا اور قوم و تمام بلوچ سیاسی قوتوں کو اسکی ہر ممکن مدد کرنی چاہیئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک اپنی ضروریات وقت کے ساتھ خود پورا کرتا رہتا ہے اگر توار ان ضروریات پر پورا اترنے میں دوبارہ ناکام رہا پھر وہ محض ایک سوچ، شخص و گروہ کا نمائیندہ اخبار بن کر رہ جائیگا اور وقت و حالات کوئی اور تحریک نمائیندہ اخبار سامنے لے آئینگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔