ڈاکٹر منان بلوچ کے سیاسی جدوجہد سے خائف پاکستان نے انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ خلیل بلوچ
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر منان جیسے سیاسی مدبر،اعلیٰ دانشور،عملی و سیاسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ تین سال قبل مستونگ کلی دتوئی میں تنظیمی دورہ کے دوران شہید اشرف کے گھر میں عظیم لیڈر ڈاکٹر منان بلوچ،ممتاز نوجوان دانشور اور مصنف نوروز بلوچ، شہید اشرف، حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ کو قبضہ گیر ریاست نے ایک ساتھ شہید کردیا۔ ایک سیاسی پارٹی کے رہبر اور قومی لیڈرکو فوج کے ہاتھوں شہیدکرنا اور ریاست کی جانب سے انہیں شہید کرنے کا اعتراف یہی ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی ریاست شہید ڈاکٹر منان بلوچ کے سیاسی جدوجہدسے شکست کھاچکاتھا اور ڈاکٹر شہید کے سیاسی فکر و فلسفے اور جدوجہدکے سامنے پاکستانی قبضہ گیریت بے بس ہوچکاتھا۔ جب سیاسی میدان میں بدمعاش ریاست ناکام ہوا تو انہیں اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت بلوچ قومی تحریک اور پارٹی کے لئے بڑے نقصانات میں سے ایک ہے۔وہ دوراندیش سیاسی رہبر، سیاسی مدبر، اعلیٰ پایہ کے دانشور، باعلم اورعملی انسان تھے۔ وہ بلوچ قومی سیاست میں سیاستدانوں کے اُس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو بلوچ قومی نجات تنظیم اور تنظیمی اداروں کی تشکیل اور تعمیر میں ممکن دیکھتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کی تھی۔ اپنی عمر کے بیشتر حصے میں بلوچ قومی آزادی کے لئے برسرپیکار رہے لیکن انہوں نے کسی بھی مرحلے پر اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں سوچا۔ کبھی اپنی ذات کو ترجیح نہیں دی بلکہ ان کی پہلی ترجیح ہمیشہ پارٹی ہی تھی۔ ان کی شہادت بھی پارٹی امور کے انجام دہی کے دوران ہوئی۔
چئیرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی آزادی کے لئے بلوچ فرزندوں نے ہمیشہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاہے اور اس سفر میں شہید چیئرمین غلام محمدبلوچ، اکبر بگٹی،ڈاکٹر خالد،حاجی رزاق بلوچ،استاد علی جان،رسول بخش مینگل، صمد تگرانی سمیت بے شمار رہنماؤں نے قومی کاز کے لئے جام شہادت نوش کی ہے اوریہ سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے آسانی سے پر نہیں کیاجاسکتا۔ ڈاکٹر منان بلوچ وہ ہستی تھے جنہوں نے شہید چیئرمین غلام محمد کی شہادت کے بعد بی این ایم کو فعال بنانے میں ناقابل فرامو ش کردار ادا کیا۔ چیئرمین غلا م محمد کی شہادت دشمن کی جانب سے ہمارے لئے واضح پیغام تھا کہ وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کرچکاہے مگر ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں کی جد و جہد نے دشمن کی عزائم کو خاک میں ملا دیا اور پارٹی کو مزیدمستحکم اور فعال بنا دیا اور آج بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچستان اور بلوچستان سے باہر قومی آزادی کے لئے نہایت اہم کردار ادا کررہاہے۔
چئیرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ نے بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچ قومی تحریک کی تبلیغ کرکے آزادی کا پیغام پہنچایا اورآزادی کے حصول کے لئے موبلائزیشن کے عمل کو بہت ترجیح دی تھی۔ اس عمل کے انجام دہی میں انہوں نے اپنی جسمانی کمزوریوں اور دشمن کی بربریت کو کسی بھی قیمت پر آڑے آنے نہیں دیا اور بلوچستان کے طول و عرض میں نہایت شاندار طریقے سے موبلائزیشن کا عمل جاری رکھا۔ آپ پارٹی کارکنان کو نہایت سختی سے تلقین کرتے تھے کہ سیاسی کارکن اور عوام کے رشتے میں دوری نقصان دہ ہے اور سیاسی کارکنوں کو ہرصورت میں عوام سے جڑے رہنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ نہایت وسیع المطالعہ انسان تھے۔ دنیاکے اہم سیاسی تنازعات پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ طب کے شعبے سے وابستہ تھے جو ان کا واحد ذریعہ معاش تھا لیکن ایک وقت آیا کہ انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور کل وقتی پارٹی اورسیاست کا حصہ بن گئے۔ ان کا ماننا تھا کہ طب کے شعبے میں بلوچ ڈاکٹر بہت ہوں گے جو اس شعبے میں بلوچ قوم کی خدمت کریں گے مگر غلامی کی مرض کا علاج کرنا میری اولین ترجیح ہے کیونکہ اس سے بلوچ قوم کی موت و زیست وابستہ ہے۔ اگر بلوچ بحیثیت قوم باقی نہ رہے تو میرے لئے طب کے شعبہ کی اہمیت نہیں رہے گی۔
خلیل بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے بلوچ قوم کی سیاسی رہبروں،تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں کو نشانہ بنایا ہے تاکہ بلوچ سیاسی عمل اور سیاسی شعور سے محروم ہوجائیں۔ غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر منان، صبا دشتیاری صاحب سمیت کئی شخصیات کو براہ راست نشانہ بناکر شہید کیا گیا۔ یہ سلسلہ ہنوذ جاری ہے مگر بلوچ قوم کے بہادر فرزند اپنی جد و جہد سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ ان مظالم نے بلوچ قوم کے اس طبقے کو بھی احساس دلوایا جو سیاسی عمل سے دور تھے۔ ہمارے قائدین کی شب و روز محنت اور تبلیغ نے ہمیں یہ ترغیب بخشی ہے کہ ظلم کو برداشت کرکے خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچ قومی جہد دو دہائیوں سے ایک منظم انداز میں جاری ہے۔ سات دہائیوں پر محیط غلامی کے خلاف مختلف ادوار میں نشیب و فراز کے ساتھ بلوچ قوم نے مزاحمت کرکے بلوچ وطن کی حفاظت کی ہے۔
بی این ایم چیئرمین نے کہا کہ اس جد و جہد کو زندہ اور مستحکم رکھنے میں ڈاکٹر منان بلوچ جیسے رہنماؤں نے اول دستے کا کردار ادا کیا۔ وہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ مستونگ میں شہید ہونے والے نوروز بلوچ ایک صاحب مطالعہ نوجوان تھے اور انہیں سوشلسٹ اور مارکسی فلسفہ پر نہایت ہی عبور حاصل تھی۔ وہ محراب بلوچ سمیت کئی ناموں سے بے شمار مضامین کا خالق ہیں۔ ہم ڈاکٹر منان بلوچ، نوروز بلوچ، اشرف بلوچ، حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بلوچ وطن کی آزادی کیلئے اپنی جانیں قربان کرکے جام شہادت نوش کی۔بلوچ نیشنل موومنٹ اس موقع پر اپنے عہد کی تجدید کرتاہے کہ ہم بلوچ شہداء کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور آزادی کے حصول تک شہدا کے فکر و فلسفے پر کار بند رہیں گے۔