بلوچ ماوں کے آنسوؤں کا تقاضہ – نود شنز بلوچ

255

بلوچ ماوں کے آنسوؤں کا تقاضہ

نود شنز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

موسمیں بدل گئیں، خزاں سے اب بہار آنے کو ہے، مگر شال کے سرد موسم میں میری بلوچ قوم کے ماں بہنیں روز نہ جانے کتنی بار مرتی ہیں۔ سردی بھوک اور بیماریاں ایک جانب، تڑپ، سسکیاں اور آنسوؤں کے طوفان نے دشتوں کو سیراب کیا ہے۔

نام نہاد بلوچیت کے علمبردار اب خاموش نظر آ رہے ہیں،
ہمارا دشمن بھی ایک غیر اخلاقی، غیر فطری اور آخری حد کا مکار ریاست ہے، جس کے سامنے نہ کماش نہ زالبول اور نہ بچوں کی کوئی حیثیت ہے۔ تاریخ دیکھ لیں، کون کونسا جبر نہیں ہوا ہے بلوچوں پر، علاقہ بدری ہو یا بلوچوں کی عزت خواتین کا جنسی استحصال، اجتماعی قبروں سے لیکر سڑک کنارے پڑے بلوچ نوجوانوں کی لاشیں، بند کمروں میں برسوں کی اذیت یا بلوچ ماں بہنوں کی برسوں کی تڑپ اور سسکیاں،
جسمانی اذہت سے لیکر ذہنی اذیت تک۔

19 نومبر 2018 کی شام کو مسنگ پرسنز کے کیمپ کے وہ لمحات شاید میں زندگی بھر بھول نہ پاوں، جہاں میں نے تمام ماں بہنوں کی سسکیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ کسانسالوں سے لیکر 70 سالہ میری بلوچ ماوں تک ہر دید اشکبار تھی۔

وہیں پر میری نظر لاپتہ دوست محمد کے 70 سالہ ( مہکھین مات) پر پڑیں، میں اسے جانتا تھا، بہت بار مظاہروں میں وہ آئی تھی۔ مجھے اس کے نورانی اور جھریوں سے بھرے چہرے میں اپنی ماں کی دروشم نظر آئی۔ میں نے اسکی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر گرتے دیکھے۔ میں کچھ وقت کیلئے باقی دنیا سے بے خیال ہو کر اسکے مبارک چہرے کو دیکھتا رہا، خود سے باتیں کرنے لگا کہ میں کیا ہوں، میں کیا کرسکتا ہوں، ان کیلئے۔ پھر خیال آیا کہ میں تو ایک تماشائی ہوں جو ہرروز یہاں آکر بیٹھ جاتا ہے، کبھی فون نکال کر کچھ فوٹو سیشن کر سکتا ہوں ۔ باقی میں کہاں انکے درد اور احساسات کے گہرائی تک جا سکتا ہوں۔

جب بھی کیمپ جاتا تو کمسن میراث جان دوڑے گرتے آجاتا مجھ سے بغلگیر ہو جاتا، میں بھی اسے بانہوں میں بھر لیتا، اسکے سانسوں سے سانسی ملا کر بہت دیر تک سکون سا محسوس ہوتا- مجھے پتہ تھا میراث ایک پرکھٹن مشکل سفر کا ایک مسافر ہے، اسے آگے بہت کچھ دیکھنا ہے، پتہ نہیں کیوں میراث کی یادیں میرا ساتھ نہیں چھوڑتیں۔

آج بھی شال کی اس سردی میں بلوچ ماں بہنیں سراپا احتجاج ہیں۔ دشمن پتہ نہیں ہمارے پیاروں کو آزاد کرے یا نہ۔ مگر کئیوں کے ضمیر ضرور جاگے ہونگے۔

قوم_بلوچ برسوں سے ناپاک ریاست کے اداروں فوج اور عدلیہ کے سامنے سراپا احتجاج ہے کہ ہمارے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرو، اگر وہ گناہ گار ہیں تو انہیں آئین کے مطابق سزا دو۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کے کربناک و اذیت بھرے لمحات سے گذر رہے ہیں، جس دن سے انہیں اغواء کیا گیا۔ یہ سلسلہ 10 سالوں سے جاری ہے مگر اس غیر مہذب ریاست اور اسکے اداروں نے کسی بھی فرزند کو منظر عام پر لایا نا عدالتوں میں پیش کیا ہے، اور اب گمان پیدا ہو رہا ہے کہ وہ انہیں کبھی نہیں چھوڑے گا، تو کب تک مائیں قیامت خیز لمحات سے اپنے جگر کا انتظار کریں، کب تک بہنیں سسکیاں لیتی رہینگی، کب تک شیر خوار بچے اور کسان سال سڑکوں پر چیختے رہینگے۔

بلوچ ماوں کے آنسو، بہنوں کی سسکیاں اور بچوں کی چیخ و پکار کا ازالہ کیا ہوگا؟ یہ ناپاک ہمارے پیاروں کو کبھی بازیاب نہیں کرے گا۔ ہم روئیں یا اپنی اپنی باری کا انتظار کریں۔

میں ذاتی طور پر یہ سمجھ چکا ہوں کہ سڑکوں پر آنسو بہانے، چیخ و پکار اور التجاء سے کچھ نہیں ہونے والا۔

شہید کمبر چاکر کی ایک بات مجھے یاد ہے کہ جب تمپ پنجگور کی گلیوں اور بازاروں میں ہماری مائیں بہنیں روئینگی، تو ہم بھی لاہور اور پنڈی کے گلیوں میں دشمن کی ماں بہنوں کو رولائینگے اور ہماری ماں بہنیں کئی برسوں سے پیاروں کے انتظار میں آنسو اور سسکیاں لے رہی ہیں، ہم نے تو وہ دیکھے ہیں، جو خود چل کر سوشل میڈیا کی توسط سے ہم تک پہنچے ہیں، خدا جانے میرے بلوچستان کی مائیں، روز کتنی دفعہ اپنے پیاروں کے انتظار میں مرتی ہیں۔

خضدار توتک سے لیکرمند تمپ کولواہ بالگتر اور ساحل پسنی سے کوھلو کاھان تک کوئی ایسا گاوں نہیں، جہاں کوئی بلوچ ورنا اور کماش برسوں سے لاپتہ نہ ہو یا شہید نہ ہو۔

بلوچ شہیدوں، زندانوں میں قید بلوچ نوجوانوں کی چیخ و پکار اور تڑپتے بلوچ ماوں کے آنسوؤں اور سسکیوں کا تقاضہ کوئی چھ نکات نہیں بلکہ دشمن کو انکی زبان میں سمجھانا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔