بلوچستان کے مختلف شہروں میں کینسر کے خلاف سیاسی، سماجی، طلبا جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے ریلیوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا گیا۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان مختلف اضلاع میں ’’بلوچستان کو کینسر اسپتال دو‘‘ کے عنوان سے سیاسی، سماجی، طلبا جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے ریلیاں نکالی گئی اور پریس کلبوں کے سامنے مظاہرے کیے گئے۔
تفصیلات کے مطابق کوئٹہ، پنجگور، کیچ، تربت، گوادر سمیت کراچی میں ’’بلوچستان کو کینسر اسپتال دو‘‘ کے عنوان سے ریلیوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا گیا۔۔
کوئٹہ میں طلبہ اور سماجی کارکنان کی طرف سے ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی، ریلی میں ایڈوکیٹ جلیلہ حیدر، ایڈوکیٹ عمران بلوچ اور بی این پی کے سی سی ممبر شمائلہ اسماعیل نے خصوصی شرکت کی جبکہ کوئٹہ پریس کلب سامنے مظاہرہ کیا جس میں ریلی کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچستان میں فوری طور پر کینسر ہسپتال قائم کی جائے اور بلوچستان میں جتنے بھی کینسر کے مریض ہیں ان کا سرکاری طور پر علاج معالجے کا اعلان کیا جائے۔ بلوچستان میں کینسر کی بڑھتی صورتحال کی وجہ ڈھونڈ نکالا جائے اور اس پہ قابو پانے کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کی جائیں۔
تربت میں آگاہی واک کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و سماجی شخصیات کے علاوہ مختلف کالجوں، اسکولوں اور تربت یونیورسٹی کے طلبہ شامل تھے۔ واک کا آغاز پبلک لائبریری سے کیا گیا جو کالج روڈ سے تھر مامیٹر چوک سے ہوتے ہوئے فدا شہید چوک پہنچا اور یہاں سے پریس کلب پہنچ کر مظاہرہ کیا گیا۔ واک میں شامل شرکاء نے بلوچستان میں کینسر ہسپتال قائم کرنے کے حوالے سے بینرز اور پلے کارڈز بھی اٹھائے تھے۔
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بڑھتی کینسر کی بیماری اور کینسر ہسپتال نہیں ہونے کے باعث کئی نوجوان اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
انکا کہنا تھا کے بلوچستان میں کینسر ہسپتال معیاری لیبارٹری بھی موجود نہیں ہے جس کے باعث غریب لوگ اپنا سب کچھ لگا کر کراچی تک چلے جاتے ہیں لیکن جب تک مریض کراچی پہنچ جائے کینسر اسے پورا جھکڑ چکا ہوتا ہے۔
گوادر میں کینسر کے خلاف مختلف تنظیموں نے جاوید کمپلکس سے گوادر پریس کلب تک واک کی۔ پریس کلب کے سامنے مظاہرین سے نا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
س واک کا مقصد عوام میں کینسر کے خلاف شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے. یہ ایک سیاسی ایشو نہیں بلکہ انسانی زندگیوں سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ بلوچستان اور خصوصاً مکران اور گوادر میں انسانی ضروریات زندگی کے لی جو غذا آ رہی ہے وه ملاوٹ سے خالی نہیں، عوام پان پراگ، گٹکا، ماوا اور دیگر نشہ آور اشیاء اور زائد المیعاد اجناس اور ادویات سے مکمل پرہیز کریں ائد المیعاد ادویات اور نقلی دوائوں کو فوری طور پر ڈرگ انسپکٹر چیک کریں اور اپنے چیکنک کے نظام کو بہتر اور تیز کریں۔
مقررین نے کہا کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں میں شعور و آگاہی فراہم کریں. عوام نے چنده کر کے ایک طالب علم کی زندگی کو بچانے کی کوشش کی وه ایک قابل تحسین عمل تھا. جس طرح کراچی، لاہور یا پاکستان کے بڑے شہروں میں کینسر اور دیگر امراض کے علاج معالجے کے لیے ٹرسٹ بنے ہیں بلوچ قوم کو چاہیے جو لوگ صاحب حیثیت ہیں وه مل کر ٹرسٹ قائم کر کے اپنے لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔
مقررین نے صوبائی اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کے وہ بلوچستان میں جلد از جلد کینسر ہسپتال کے قیام کا اعلان کرکے اس پر عمل درآمد شروع کردے اور اس امر کی بلوچستان کو سب سے زیادہ ضرورت بھی ہے۔