وطن زادہ شہید ڈاکٹر شہزاد بلوچ
خادم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں حیران و پریشان رہ گیا، کان یہ سُننے کو تیار نہیں تھے، دل و دماغ اس بات کو ماننے سے انکاری ہو گئے، جب میں نے سُنا کہ شہید ڈاکڑر شہزاد جان اور ماما نجیب ہمیں اس انقلابی سفر میں تنہا چھوڑ کر شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو گئے ہیں۔ کبھی کبھی انسان کشمکش میں پھنس جاتا ہے، میں حیران اس لیئے تھا کہ اپنے پرانے اور جگری دوست کے بچھڑ جانے پر ماتم کروں یا جس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ڈاکٹر شہزاد جان نے اس کاروان کا انتخاب کیا اُسے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے پر مبارک باد پیش کروں۔ کسی بھی جہدکار کیلئے یہ فیصلہ لینا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ اپنا تن دھن من سب کچھ قومی آزادی کیلئے قربان کرنے کا فیصلہ کرے لیکن دوستوں کے اندر قومی آزادی کیلئے قربانی کا جذبہ موجود ہو، ان کیلئے ایسے فیصلے لینا بڑی بات نہیں ہوتی۔ شہزاد جان نے ان حالات کا بخوبی اچھے طریقے سے مشاہدہ کیا تھا اور اس بات کو سمجھ گیا تھا کہ پاکستان جیسے جابر ریاست سے اپنی آزادی لینے کیلئے یہ فیصلہ اب ہر بلوچ نوجوان کو لینا پڑے گا کیونکہ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ دشمن جب پاکستان جیسا وحشیانہ ریاست ہوگا تو اس سے اپنی آزادی حاصل کرنے کیلئے مسلح جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا، یہی راستہ میرے دوست ڈاکٹر شہزاد (آصف بلوچ) نے بھی اختیار کیا۔
شہید شہزاد طالبعلمی کے دوران بی ایس او سے منسلک تھے اور وہاں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، شہید اکثر سوالات پوچھتے تھے، وہ بلوچ قومی تحریک سے جُڑے ہر مسئلے پر سوالات پوچھتے رہتے تھے، قومی جنگ و سیاسی حالات، بلوچ ڈیسپورا، قومی تحریک سے جُڑے ہر مسئلے پر باریک بینی سے سیاسی بحث کرتا رہتا تھا۔ وہ اتنے سوال پوچھتا تھا کہ اکثر دوست ان کے سوالات سے تنگ آ جاتے تھے، ان میں سے ایک بدنصیب میں بھی تھا، جو اس کے اندر موجود اس جذبے کو سمجھ نہیں پاتا تھا کہ وہ وطن کا عاشق، وطن کی دیوانگی میں ہے۔ وطن اور تحریک سے جُڑے ہر مسئلے پر وہ دن رات سوچا کرتا تھا، اُسے ہر چیز کی فکر تھی، شہید کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ اس نے براہوئی زبان پر کچھ ہی وقت میں عبور حاصل کرلیا، جب وہ نیا نیا سیکھ رہا تھا تو بہت سے دوست اس کو چڑاتے تھے کہ آپ براہوئی جیسے پرکشش زبان کی بےحرمتی کر رہے ہو، نہیں آتا تو چھوڑ دو کیوں بار بار غلط کہتے ہو لیکن وہ ایسا نہیں تھا وہ تو ایک عاشق تھا دیوانہ تھا زمین کا اپنے زبانوں کا وہ دکھانا چاہتا تھا کہ میرے گھر میں چاہے جو زبان میں نے سیکھا ہے لیکن براہوئی بھی ہمارا مادری زبان ہے، اُسے بھی سیکھنا، ہمارے لیئے ضروری ہے۔ وہ ہمارے درمیان زبان کے فرق کو مٹانا چاہتا تھا کہ براہوئی اور بلوچی دونوں ہماری مادری زبانیں ہیں، اُنہیں سیکھنا ہر بلوچ کیلئے ضروری ہے اور وہ سیکھتے سیکھتے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور جلد ہی براہوئی زبان پر عبور حاصل کرلیا۔
شہید ان نادان لوگوں کیلئے ایک اعلیٰ مثال ہے جو زبان پر سیاست کرتے ہیں اور زبانوں کو الگ الگ سمجھتے ہیں اور انتشار پھیلاتے ہیں لیکن شہید نے بلوچستان کے کونے کونے کے لہجے پر عبور حاصل کیا اور جہاں بھی جاتا اپنے آپ کو وہاں کے ماحول اور لوگوں میں ڈال دیتا تھا، واقعی میں وہ سب سے جُدا تھا اور اس کی فکر اور سوچ بہت اعلیٰ تھا، اس کی دیوانگی اور وطن سے عشق کا اندازہ شاید مجھ جیسا انسان نہ کر پائے۔
شہید کے ساتھ ایک اور بہت بڑا ہنر تھا، وہ گانے کا تھا لیکن وہ کبھی بھی لوگوں کے سامنے نہیں گاتا تھا اور اپنے اس ہنر کو چھپاتا تھا۔ میں کبھی کبھی اس پر بہت زور دیتا تھا کیونکہ اس کی آواز میں بہت زیادہ مٹھاس تھی، وہ زیادہ گاتا نہیں تھا اس لیئے کہ جس ماحول میں ہم رہ رہے تھے وہاں انقلابی گانے گانا اپنے موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا اور شہید کا پسندیدہ گلوکار واجہ میر احمد تھا اور اس کے گانے اُسے ہمیشہ یاد رہتے تھے، اکثر وہ خود سنتا تھا اور خود ہی گنگناتا تھا ایک دن دوستوں اور میری بہت زیادہ منتیں کرنے کے بعد اُس نے گانے کیلئے حامی بھری اور ایک اچھی جگہ پر، شہید نے دوستوں کو اپنے آواز سے خوب لطف اندوز کیا۔ اس کی آواز میں جو قوم کیلئے درد تھا، شاید یہ بھی وہی جانتا ہوگا کہ وہ کتنا بلوچستان کو چاہتا تھا۔ ہم صرف الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں لیکن اس جذبے کا اظہار کرنا مجھ جیسا ادنیٰ جہدکار نہیں کر سکتا کیونکہ میرے ساتھ اتنے الفاظ نہیں۔
ایک دن میں نے اُسے پوچھا گھر کی یاد نہیں آتی، بہت وقت ہو چُکا ہے گھر نہیں گئے ہو، حال حوال ہوا ہے کہ نہیں کیسا محسوس ہو رہا ہے یہاں پہاڑوں میں دوستوں کے ساتھ، جنگ کتنا مشکل ہے؟ لیکن وہ ہنستا مسکراتا اسی جگہ کیلئے تو میں تڑپتا تھا، میری ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وطن کی خاطر کچھ کروں وطن کی آزادی کیلئے کچھ کروں اور آج میں جہاں ہوں یہاں بس میں اور میرا سرزمین ہے، یہاں میرے دوست بھی میرے جیسے وطن زادے ہیں، جنہیں وطن سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ جن کا ایمان، جن کا گھر بار، سب کچھ مادر وطن بلوچستان ہے گھر میں شاید میں اتنا خوش نہیں ہو سکتا تھا، جتنا میں یہاں پر ہوں اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے نرمزاروں کے ساتھ قوم اور سرزمین کی دفاع میں لگا ہوں، گھر میں شاید میری زندگی بے مقصد ہوتی لیکن یہاں میں مقصد کے ساتھ جی رہا ہوں اور کبھی بھی موت کا سامنا ہوا تو اس مقصد کے ساتھ شہادت نصیب ہوگا اس سے بڑھ کر کیا بات ہوگی۔
ہم جب بھی بیٹھ جاتے تو دل نہیں کرتا تھا کہ ان کا دیوان چھوڑ دیں، ایک شہزاد جان جس کے پیار بھرے کہانیاں تھیں تو دوسری جانب ماما کا مسکراتا چہرہ، دوست اکثر ماما کو اس کے بنائے ہوئے چائے کیلئے ستاتے تھے۔ ماما بھی انہی اشخاص میں تھا جس نے اپنی پوری زندگی وطن کیلئے وقف کیا ہوا تھا۔ جو جوانی سے اس عمر تک قومی آزادی کیلئے بلوچ فوج بی ایل اے میں اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہا تھا، کبھی خواب میں نہیں سوچتا تھا کہ یہ دونوں ہم سے اتنی جلدی جُدا ہونگے اور وطن کے عشق میں جام شہادت نوش کریں گے۔
جب ہم یونیورسٹی میں تھے اور وہاں شہزاد جان سے پہاڑوں میں دوستوں کی حالت کا پوچھتا تھا، تو میں بہت زیادہ اُسے ڈرانے کی کوشش کرتا تھا اور دوستوں کی سخت زندگی کو جتنا بھی سخت سے سخت ظاہر کر سکتا تھا کرتا تاکہ وہ جو سوچ رہا ہے وہ زیادہ سوچے اور اس جانب محو سفر ہونے سے پہلے ہزاروں بار سوچ لے کیونکہ اس سفر میں جانا ہوتا ہے لیکن واپس آنا نہیں ہوتا اور وطن کی مکمل آزادی تک وہیں پر جنگ کرنا تھا، لیکن وہ میری باتوں کو غور سے سنتا تھا اور مزید پوچھنا شروع کر دیتا تھا، وہ ہمیشہ پوچھتا رہتا تھا کہ دوستوں کو کن کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے؟ وہ کیسی کیسی سختیاں برداشت کرتی ہیں؟ وہ اس لیئے پوچھتا تھا کہ اس کے دل میں اب وہی راہ اختیار کرنے کا ارادہ تھا تاکہ وہ جانے سے پہلے حالات کا بخوبی مشاہدہ کر سکے، وہ اب عملی طور پر قومی آزادی کیلئے اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار تھا۔
وہ بہت وقت پہلے جنگ کیلئے جانے کو تیار تھا، لیکن میں اُسے ہمیشہ یہ کہہ کر روکتا کہ ابھی آپ کو پڑھائی ختم کرنا ہے، وہاں دوست پڑھے لکھے دوستوں کو زیادہ ذمہ داریاں دیتے ہیں، آپ پڑھو، لکھو بعد میں وقت آئے گا تو آپ جانا، ابھی آپ کا وقت نہیں ہے لیکن وہ ہمیشہ ایک موقعے کی تلاش میں ہوتا، اُسے وطن کی دیوانگی بستروں میں آرام کی نیند سونے نہیں دیتا تھا، آخر کار ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود جب اُسے موقع ملا تو وہ اپنے منزل کی طرف چلا گیا اور پہاڑوں کے آغوش میں کھو گیا۔
ایک دن جب میں کیمپ کچھ دوستوں سے ملنے گیا تھا تو وہاں کسی دوست نے کہا کہ انتظار کریں آپ سے کوئی دوست ملنے کو آ رہا ہے، پہلے تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ کون ہو سکتا ہے؟ لیکن مجھے سیدھا شہزاد جان کا یاد آیا، مجھے پتہ تھا کہ اس کے علاوہ مجھ سے ملنے کو کوئی اور دوست اتنا زیادہ بیتاب نہیں ہو سکتا، جب وہ آیا تو اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا، شکل کالا پڑ گیا تھا، اس لیئے وہ اکثر دوستوں سے کہتا تھا کہ میرا نام کالا ہے، وہ ہمیشہ مختلف مختلف نامیں رکھتا تھا، کبھی اپنے آپ کو کالا کہتا تھا، کبھی کالو تو، کبھی کوئی اور نام، آج یقین نہیں آتا کہ شہید ماما اور شہزاد جان ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔
دشمن فوج اتنا یاد رکھے کہ آج بلوچستان کے پہاڑوں میں ہزاروں شہزاد جان اور ماما بیٹھے ہیں، جو اپنا سب کچھ وطن کی آزادی میں لوٹانے کیلئے تیار ہیں، جن کی زندگی کا مقصد بلوچ شہداء کے فلسفے کو آگے بڑھانا ہے، شہیدوں کا مقصد اور فکر و فلسفہ آج بھی ہمارے دوستوں کے ساتھ ہے اور بلوچستان کی آزادی تک بلوچ قوم اسی فلسفے کو اپناتے ہوئے جہد کرتا رہے گا۔ پاکستانی ریاست اس غلط فہمی کا شکار نہ رہے کہ شہید شہزاد جان کو شہید کرکے وہ قومی تحریک کو نقصان پہنچائے گا بلکہ شہداء کے فکر و فلسفے کو آگے بڑھانے کیلئے آج ہزاروں نوجوان وطن اور دھرتی ماں کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ جیت ہر حال میں ہماری ہوگی کیونکہ جیتنا ہمارا حق اور زندگی کا حصہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔