لاپتہ بلوچ فرزندان اور ہمارا قومی فرض ۔ بالاچ بلوچ

198

لاپتہ بلوچ فرزندان اور ہمارا قومی فرض

بالاچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان کے شہر کوئٹہ کی یخ بستہ سردی میں بیٹھے ہوئے لاپتہ بلوچوں کے اہلخانہ کا احتجاج بدستور جاری ہے۔ آئیں لاپتہ بلوچ فرزندوں کی آواز بنیں اور ُانکے اہل خانہ کے شانہ بہ شانہ چلیں اور جوق در جوق اس کاروان کا حصہ بنتے ہوئے ُان کے ہاتھ مضبوط کریں، اور اسے ہم سب بلوچ اپنا قومی فریضہ مانتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے بلوچ لاپتہ آخری فرد کی بازیابی تک اپنا قومی فرض پورا کریں۔

بقول شاعر کہ “زمین وہاں جلتی یا گرم ہوتی ہے جہاں آگ لگی ہو” تو میں نہیں سمجھتا کہ آج ہم میں سے کوئی گھرانہ بھی ایسا ہو جو اس آگ کی تپش کا مارا ہوا نہ ہو، تو آئیں ہم سب ملکر اپنے پیاروں کی آواز بنیں اور ُان کی با حفاظت بازیابی کے لیئے اپنے تمام تر کاموں اور مصروفیات سے بالا تر ہوکے اس ُپر امن احتجاج کا حصہ بنیں۔

ہمارے پیارے بغیر کسی جرم کے غائب کر دیئے جاتے ہیں، صرف اس لیئے کہ ہم بلوچ ہیں۔ اس غیر فطری ریاست، اس کے کارندوں اور اس کے فرسودہ بنائے ہوئے قانون جو کہ عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا کر بلوچوں پر ظلم و جبر کی ایک نئی خونی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اب یہ عالمی عدالتوں اور انسانی حقوق کی الم بردار تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستانی ریاست اور اسکی خفیہ اداروں سے پوچھیں کہ کس قانون کے تحت اور کس نے ان کو یہ اختیار دیا ہے کہ ایک معصوم بے گناہ فرد کو جب اور جہاں دل چاہے غائب کر کے ُاسے سالوں زندانوں میں رکھ کر اور ُان کے نہ کردہ گناؤں کی سزا دی جائے اور اذیت دیکر پھر ویرانوں میں ُان ماؤں کے لخت جگروں کی تشدد زدہ لاشیں پھینک دی جائیں۔

یہ ظالم(پاکستانی ریاستی فورسز) کیا جانیں وہ گھرانے کس کرب و درد سے گزتے ہوئے اپنے پیاروں کے سلامتی اور واپسی کے لیے بے بس ُان کی راہیں تک رہے ہوتے ہیں۔ وہ کس طرح شب و روز اپنے پیاروں کی تلاش میں در بدر کی خاک چھان رہے ہوتے ہیں اور انکے زبان پر بس ایک ہی بات ہوتی ہے کہ اگر وہ (ہمارے لاپتہ کیے گئے پیارے) گناہ گار ہیں تو انہیں قانون کے تحت سزا دی جائے، انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور ہمیں ان سے ملنے کا حق دیا جائے، ہمیں یوں کربناک تکلیفوں میں مبتلا نہ کیا جائے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔