قبلہ آجوئی جنرل اسلم بلوچ
شئے رحمت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج میں جس شخص کے بارے میں لکھنے جارہا ہوں، وہ ایک ایسا چراغ ہے کہ کبھی بجھے گا نہیں۔ مادر وطن بلوچستان کے ہر کونے میں، ہر پہاڑ میں، ہر چٹان میں، ابھی تک روشن ہے۔ ایک ایسا شخص جس کو دشمن مار نہ سکا۔ دشمن نے یقیناً جنرل کو جسمانی طور پر ہم سے جُدا تو کردیا لیکن اس کا نظریہ، اس کا سوچ ہمیشہ ہماری رہنمائی کریگا۔
ایک ایسا شخص جو ماہر سیاسیات، ماہر جنگی کمانڈر اور ایک قومی لیڈر تھا۔ ابھی بھی اپنی قوم کی رہنمائی کریگا۔ پاکستانی آرمی اور اس کی کرائے کے قاتل آئی ایس آئی نے جنرل کو شہید تو کیا لیکن اس کی سوچ اور نظریہ کو ہم سے جدا نہ کر سکا۔ جنرل کو شہید کہنا بلوچ قوم کیلئے انتہائی افسوس کی بات ہے لیکن مایوس نہیں ہونا جس طرح اسلم بالاچ بن کر دشمن کی نیندیں حرام کررہا تھا۔ اسی طرح آج ہر بلوچ کو اسلم بن کر دشمن کو شکست دینا ہے۔
اسلم کا بدلہ ہم آزاد بلوچستان کی صورت میں لینگے۔ آج ہم کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ ہم اتنا بے بس، لاچار کیوں ہیں۔ ہم کو یہ سب سمجھ کر مایوسیوں کو توڑنا چاہیئے ۔ اور وطن سے وفادار ہونا ہے۔ استاد کی شہادت ایک نقصان ہے لیکن ہم کو مایوسی نہیں بلکہ ہمارے جذبوں کو اس شہادت نے بلند کیا ہے۔
اسی طرح بلوچستان میں ہزاروں فرزند شہید ہوگئے ہیں ۔ افسوس یہ نہیں بلکہ خوشی اس بات کی ہے کہ اُسی ہی گھر سے چار پانچ بلکہ پوری فیملی اس تحریک کا حصّہ بن چکا ہے۔ اس سے بڑی بات ہماری لیئے اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ آج ریاست بلوچ قوم کے آگے اور اپنے کی ہوئی ظلم کیلئے پچھتا رہا ہے۔ اگر اسی طرح بلوچ قوم کے ہمت اور حوصلہ بلند رہینگے تو جلد ریاست کو بلوچ قوم کے آگے جھکنا پڑیگا ۔ آج ریاست اپنی پوری طاقت کا استعمال کر رہا ہے لیکن اس کے باجود بھی گوریلا جنگ کو ختم نہ کر سکا۔
ہمارے کئی لیڈر شہید ہو چکے ہیں۔ جیسے بالاچ, نواب نوروز, شہید غلام محمد اسی طرح سے اور بھی بہت ہیں جو آج جسمانی طور پر ہم سے جدا ہیں۔ ریاست انکو شہید کرکے یہی سمجھ رہا تھا کہ اب بلوچ رہنما شہید ہوگئے ہیں تو یہ جنگ ختم ہوگا۔ لیکن یہ جنگ آج بھی جاری ہے ۔ اگر اس جنگ کو ختم ہونا ہوتا تو میر محراب خان کے شہادت کے بعد ختم ہوتا۔
بلوچ اپنی آخری سانس تک لڑا ہے، یہ تاریخ گواہ ہے کہ کسی کی غلامی نہیں کی ہے۔
استاد اسلم ۲۵ سال تک تحریک میں رہ کر وطن کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ اور کئی محازوں پر جنگیں لڑے، جس میں قابض ریاست کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ کئی جنگین قتح کرکے خود محفوظ نکلے۔ استاد ۲۵ سالوں میں اپنی طرح کے کئی استادوں کو جنم دے چکا ہے، جو استاد کی شہادت کے بعد استاد کے کاروان کو آگے لیکر جایئنگے۔
شہید جنرل اسلم نے اپنے بیٹے کو سب سے پہلے بھیج دیا تاکہ کسی کو ایسا نہ لگے کہ اپنے بیٹے کو تحریک سے زیادہ سجھتا ہے۔ استاد کے اس مردانہ عمل نے بلوچ قوم کو بہت حوصلہ بخشا۔ استاد کے ساتھ ساتھ لمہ یاسمین بھی قابل سلام ہیں، جنہوں نے اپنے لخت جگر کو موت کے منہ میں بھیج کر کہا کہ جاؤ میں نے آپکو وطن کیلئے قربان کردیا۔
آج اگر استاد جسمانی طور پر ہمارے پاس نہیں ہیں لیکن اس کا فکر ہمارے ساتھ ہے۔ استاد اور انکے ساتھیوں کو سلام پیش کرتا ہوں، جو آخری سانس تک وفادار رہے۔ شہیدوں کی موت قوم کی حیات ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔