طالبان، امریکہ مذاکرات اور بلوچستان
نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
امریکہ بہادر اکیسویں صدی میں بھی سپر پاور کے صدارتی منصب پر فائز ہے، اس لیئے جب جہاں چاہتے ہیں دنیا کے کسی بھی خطے و سر زمین کو اپنے آباواجداد کی سرزمین سمجھ کر بی 52 بمبار طیاروں سے لیکر چھوٹی ٹیڈو گاڑیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ عرب تلور کی شکار کیلئے سرد و گرم علاقوں میں سال کا آدھا حصہ گذارتے ہیں اور واپس اپنے ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔ امریکی ایسا نہیں کرتے انکے شکار اور شکار کا طریقہ کار ذرا مختلف اور وقت طلب ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں پھر سالوں نہیں لوٹتے، شکار دہشتگردی کے نام پر اقوام کا کرتی ہیں۔ جب مفادات پورے ہوتے ہیں تو بوریا بستر باندھ کر روانہ ہوجاتے ہیں۔ ویتنام، عراق،شام، اور اب افغانستان سے واپسی سے پہلے طالبان سے تقریبا” سترہ سالہ جنگ کے بعد دو بھائیوں جیسی مذاکراتی عمل جاری ہے۔ بعض سیاسی مفکر اور دانشور پریشانی میں مبتلا ہیں ان مذاکرات کی صحت پر یقین نہیں ہورہی۔ حالات ایسے پیدا ہوچکے ہیں کہ نہ اب کسی کو امریکہ بہادر کے ایمان پر بھروسہ رہا ہے، نہ طالبان کی جہاد لوگوں کو انسانیت کا درس دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پینتالیس سالوں سے جنگ میں جھلسی افغانستان آج بھی غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار ہے۔
بلوچستان کی اسٹریٹیجک اہمیت، بلوچ قومی تحریک کو مسلسل آزمائشوں کی نذر کرتی رہی ہے۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں قومی تحریک آزادی کی اگلی لہر کو فیصلہ کن بنانے کی شروعات ہوئی تو امریکہ بہادر بھی افغانستان پہنچ گیا۔ طالبان اور القائدہ جو پہلے امریکہ کے پارٹنر رہے تھے، انکے اختلافات نے افغانستان سمیت خطے کو خون آلود کردیا۔ جسکے اثرات بلوچ قومی تحریک پر پڑنے لگے۔ پاکستان نے بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے اندرون خانہ پروپگنڈہ شروع کردیا۔ بلوچ قوم پر امریکی ایجنٹ اور افغانوں کے ایجنٹ جیسے الزامات لگے۔ قابض ریاست خود امریکی ڈالر وصول کرتی رہی اور ایک خالص قوم پرست کو امریکہ کے سر تھونپنے میں بھی کسر نہ چھوڑی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے انہدام کے بعد پاکستان نے امریکی حکم کو پورا کرنے کیلئے امریکہ کو راستوں کی فراہمی سے لیکر طالبان رہنماوں کے گھروں تک رسائی میں کسر نہ چھوڑی، طالبان دشمنی میں بھی آگے اور امریکی وفاداریوں میں بھی شراکت دار کی حیثیت سے شامل رہا۔
اب جب افغانستان ترقی کی جانب گامزن ہے، ایک دفعہ پھر انارکی پیدا کی جاری ہے۔ افغان طالبان بھی اتنے سالوں کی جنگ اور امن کی قیمت سے واقف ہیں۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ امریکہ سے براہ راست مذاکرات خود افغان طالبان کا مطالبہ ہے یا سہولت کاروں کا؟ فرض کرتے ہیں کہ سہولت کار ہی امریکہ سے طالبان کو میز پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، تو انکے مفادات بھی اس مذاکراتی عمل میں شامل ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مذاکرات میں خود افغانوں اور افغانستان کے مفادات کو کس قدر عزیز رکھا گیا ہے۔ طالبان سے جو گارنٹی مانگی گئی ہیں وہ القائدہ اور داعش جیسی قوتوں کو روکنے کی شرائط ہیں۔ ایک انوکھاء مطالبہ افغان طالبان کی جانب سے بلوچ قومی تحریک آزادی اور اس سے جڑے مزاحمت کاروں سے تھی کہ وہ انکو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ اب یہاں اس مطالبہ کرنے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ بلوچ تو اپنی جنگ اپنی سرزمین پر لڑ رہے ہیں۔ جنگ سے متاثرہ کچھ خاندان، عورتوں بچوں پر مشتمل افغانستان میں ہجرت کرکے آباد ہوئے ہیں کیا افغان طالبان، بلوچوں سے افغانستان کی تاریخی تعلق کو پھر نوے کی دہائی کی طرح فراموش کردیں گے؟ اگر ایسا ہے تو پھر طالبان نے ان بیس سالوں میں کچھ نہیں سیکھا۔
مذاکراتی عمل میں افغان قیادت مکمل نظر انداز کی جاچکی ہے، جس کے سبب پچاس فیصد نتائج منفی ہی آئیں گے، اس خطے کے عوام کیلئے، تاہم یہاں بسنے والے اقوام اور پھلنے پھولنے والی قوم پرست تحریکوں کو غور و فکر کرنا ہوگا۔ بلوچ قومی تحریک جس قدر خود انحصاری کی جانب بڑھے گی، اتنی ہی کامیابی حاصل ہوگی۔ تاہم اس مذاکراتی عمل کے نتائج سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ دوست اور ہمدرد قوتوں سے مل کر قومی مفادات کی تحفظ کی ہرممکن کوشش کی جائے۔
آج حالات نہ فتح کابل کے زمانے کے رہے ہیں، نہ خود علاقائی سیاست اس بات کا متحمل ہوسکتا ہے کہ قوم پرست قوتوں کی مرضی و منشاء کے بغیر علاقائی صف بندیاں کی جاسکیں۔ ایسا کوئی بھی عمل مذاکراتی عمل کے ساتھ ساتھ امن کی خوابوں کو چکنا چور کردے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔