شب و روز جدوجہد اور سگارِ بلوچ رحیم مری – برزکوہی

566

شب و روز جدوجہد اور سگارِ بلوچ رحیم مری

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

متحرک و فعال اور سرگرم عمل رہنا، اپنے جدوجہد اور قومی ذمہ داریوں کے بابت متحرک کردار ادا کرنا، ایک انقلابی کارکن اور انقلابی لیڈر کی بنیادی اور اہم خصوصیت ہوتی ہیں۔ گوکہ انقلابی کارکن صرف خود شب و روذ متحرک و فعال اور سرگرم ہوتا ہے، مگر انقلابی لیڈر خود ہمیشہ متحرک و فعال اور سرگرم عمل ہوکر دوسروں کو بھی متحرک و فعال اور سرگرم عمل رکھتا ہے اور غیرانقلابی یا نیم انقلابی کارکنان و لیڈران کی واضح علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف برائے نام انقلابی اور نیم انقلابی ہوتے ہیں یعنی صرف دعووں کی حد تک، اس سے بڑھ کر وہ غیر متحرک اور غیر فعال ہوکر شب و روذ جدوجہد سے وابستہ ہوکر بھی کچھ کرنے اور ہاتھ و پاوں ہلانے کی کوشش بھی نہیں کرتے ہیں، بس وقت پاسی کرتے ہیں۔ ان کا رویہ ہمیشہ مایوسی، ناامیدی، بیزاری پر مبنی ہوکر تنقید برائے تنقید اور نقطہ چینی پر ہوتا ہے۔ ایسے رویے دشمن سے خطرناک اور تحریک میں موجود ہوکر تحریک کے خلاف دشمن کے کاموں کو آسان کرنے والے پرزے ہوتے ہیں اور ایسے نیم انقلابی اور غیر انقلابی عناصر کی کھسر پھسر والے رویے، قومی تحریکوں اور قومی پارٹیوں میں اپنے منفی اور گند آلود اثرات چھوڑ کر، تحریک کو دشمن سے زیادہ کھوکھلا اور کمزور کرتے ہیں۔

شہید سگارِ بلوچ کمانڈر رحیم مری ایک مکمل انقلابی گوریلا کمانڈر اور پختہ انقلابی جہدکار تھا، سگار رحیم جان کے بارے میں یہ بات مشہور تھا کہ اگر کوئی بچہ بھی، وہ بھی صرف بلوچ نہیں بلکہ کوئی بھی مظلوم سندھی اور پشتون تک شہید سگار کو فون کرتا، کسی بھی کام کا کہتا وہ انکار نہیں کرتا اور انتہائی ذمہ داری اور بہتر انداز میں وہ کام پورا کرتا تھا۔ میرے خیال میں یہ انقلابی عمل خود اپنے اندر قومیت، مظلومیت اور انسانیت کے جذبے سے سرشار خالص مخلصی، ایمانداری، نیک نیتی اور انقلابی پن تھا۔ اسی احساس کو لیکر آج جس طرح تمام جہدکاروں سمیت بلوچ قوم کو جنرل اسلم بلوچ اور دیگر دوستوں کی کمی محسوس ہوتا ہے اسی طرح شہید سگارِ بلوچ رحیم بلوچ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

قبائلی و خونی اور سماجی رشتوں اور دباو کو پیروں تلے روند کر نظریاتی و فکری اور حقیقی جنگ کی تپش میں کود کر اپنا جان نچھاور کرنے کے ساتھ اپنی ماں، بیوی بچوں اور بہن بھائیوں سمیت پورے خاندان کو نظریاتی و فکری بنیادوں پر تربیت کرنا، خود اس بات کا واضح ثبوت اور منطق ہے کہ نظریاتی و فکری رشتے دنیا کے تمام رشتوں سے اعلیٰ اور مقدس ہوتے ہیں۔

ہم شروع سے کہتے آرہے ہیں، اہمیت ہمیشہ لوگوں کی سطحی اور غیر سطحی آراء کی نہیں ہوتی ہے بلکہ فیصلوں کا ہوتا ہے۔ خاص طور پر تاریخ و وقت اور مورخ کے فیصلوں کا ہوتا ہے، آج ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ جنرل اسلم اور کمانڈر رحیم مری اور دیگر دوستوں کے حوالے سے آراء کیا تھے اور فیصلہ کیا ہوگیا؟ یہی فیصلہ اب تاریخی فیصلوں کے تاابد حصے ہوگئے۔

شہید رحیم مری اپنے بہتے ہوئے لہو کی تپش اور چھینٹوں سے، اپنے کردار و عمل کو تاریخی صفحات میں خود لکھ کر تاریخ میں اس طرح امر ہوگئے کہ اس کے مقابلے میں تمام منفی آراء اپنی موت خود مر کر شرمندہ ہوگئے۔

اسی علم و شعور، سوچ و اپروچ اور ادراک کو مدنظر رکھ کر ہم ہمیشہ تذبذب کا شکار نہیں ہوئے اور ہونگے بھی نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے بڑھ رہے ہیں، پختہ یقین اور ایمان کے ساتھ کیونکہ ہمیں یقین ہے لوگوں کی آراء وقتی اور سطحی ہونگے اصل فیصلہ تاریخ و مورخ اور وقت کا ہوگا۔

یہ بات پہلے بھی مکمل حقیقت اور مستند تھا لیکن آج جنرل اسلم اور شہید رحیم اور دیگر دوستوں کی عظیم قربانی انہیں مزید پختہ کرتے ہوئے اس پر حقیقت کا مہرثبت کردیا۔

جب بھی کسی جہدکار کا اسی یقین پر پورا عقیدہ ہو کہ اصل فیصلہ وقت، مورخ اور تاریخ کا ہوگا، پھر اس کا ٹوٹنا، بکھرنا، تذبذب کے شکار ہونے کی کیفیت میں مبتلا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر وہ تاریخ میں جنرل اسلم اور سگارِ بلوچ رحیم کے فہرست میں شمار ہوگا۔

وقت کی مکمل پابندی انتہائی یاداشت کے ساتھ مکمل توانا ہوکر اپنی کام کو ذمہ داری، رازداری اور ہنرمندی سے سرانجام دینا سگار رحیم کی بنیادی اور مشہور خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت تھی۔

کبھی بھی کسی بھی وقت کسی کو یہ شکایت و شکوے کا موقع ہی نہیں ملا تھا کہ رحیم آج وقت کی پابندی نہ کرتے ہوئے دیر کرچکا ہے یا رحیم کے زبان سے یہ لفظ کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ رحیم یہ کہہ دے کہ میں یہ کام بھول چکا ہوں، مجھے یاد نہیں آیا۔

یہ تمام رویے اور صفات، انقلابی رویوں کے ساتھ کسی بھی جدوجہد کی اپنے فکر و نظریئے کے ساتھ سچے کمٹمنٹ، مخلصی، ایمانداری، حب الوطنی اور قوم دوستی کا واضح ثبوت ہیں۔ جب ان خصوصیات کا فقدان ہو یا وجود ہی نہ ہو تو مکمل انقلابی ہونے پر تشکیک ہونا لازمی ہوتا ہے۔

نظریاتی و فکری دوستوں کی جسمانی جدائی کا درد، کرب و تکلیف اپنی جگہ ایک حقیقت ہے، مگر دوستوں کی قربانیوں کے بدولت قومی تحریک اور قومی جنگ اپنے اندر ایک توانا قوت پیدا کرکے شدت اختیار کریگا، یہی شدت ہمیشہ تحریک کی کامیابی و کامرانی ہوگا۔ دنیا کی تحریکی تاریخ میں ہمیں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں، صرف مطالعے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔