راشد حسین کی گرفتاری، عرب و بلوچ تعلقات پر اثرات
محمد احمد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
راشد حسین کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات خفیہ سیکورٹی ایجنسی “امن” کے اہلکاروں نے شارجہ کے علاقے زید سے اس وقت گرفتار کرکے لاپتہ کیا، جب وہ اپنے کزنوں کے ہمراہ اپنے روزمرہ کی کام کے سلسلے میں جارہے تھے، گرفتاری اور گمشدگی کے بعد راشد حسین کی فیملی شدید کرب و اضطراب اور خوف کا شکار ہے کیونکہ اگر متحدہ عرب امارات راشد حسین کو پاکستان کی حوالے کرتی ہے، پھر راشد حسین کی زندگی شدید خطرات سے دو چار ہوگا بلکہ اُنکی زندگی کے بارے میں خاندان سمیت بلوچ قوم کو شدید خدشات اور تحفظات ہے کہ پاکستان راشد حسین کے خاندان کے دیگر افراد کی طرح راشد حسین کو بھی مار دے گی کیونکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور خلاف ورزیوں کی شدید قسم کے کیسز سامنے آئے ہیں اور سیاسی اختلاف کے بناء پر کئی نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے۔
جب دیگر بلوچوں کی طرح راشد حسین کی فیملی کو وہاں زندگی کے متعلق خطرات لاحق ہوئے تو اُنہوں نے ہجرت کرکے متحدہ عرب امارات کا رخ کیا اور یہاں وہ ذاتی کاروبار اور محنت و مزدوری کرکے اپنے خاندان کے بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کررہے تھے، اُن پر متحدہ عرب امارات میں کوئی کریمنل کیسز وغیرہ نہیں بلکہ وہ امارات کے قانون کی مطابق رہائش پذیر تھے لیکن پاکستان کے بدنام زمانہ ایجنسیوں کی اور سی ٹی ڈی فورسز کی شکایات پر بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے اُنہیں خطرناک مجرموں کی طرح اُٹھا کر لئے گئے اور راشد حسین سے ملاقات اور اُن تک اُنکے خاندان کو بھی رسائی نہیں دی جارہی بلکہ اُنکے خاندان کو مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، جو انسانی و اسلامی روایات اور خود امارات کے قانون کی سنگین خلاف ورزی کی مترادف ہے، دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگ اس لیئے عرب امارات کا رخ کرتے ہیں، یہاں اُنہیں تحفظ اور سیکورٹی کے حوالے سے زیادہ خطرات نہیں بلکہ وہ آزادانہ طریقے سے زندگی بسر کرسکتے ہیں ملازمت اور بزنس کرسکتے ہیں لیکن راشد حسین کی غیر قانونی اور جبری گرفتاری و گمشدگی نے متحدہ عرب امارات میں مقیم بلوچوں سمیت دیگر اقوام کو ذہنی پریشانی اور اضطراب میں مبتلا کیا ہے، اس عمل سے عالمی و علاقائی حوالے سے متحدہ عرب امارات کی قانون اور غیر جانبداری پر سوالات اُٹھیں گے۔
اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو بلوچ قوم کی عربوں سے انتہائی قریبی اور مضبوط تعلقات رہے ہیں اور اب بھی ہیں، بلوچ ہر مشکل وقت میں عربوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اس لیئے یو اے ای کی بانی رہنما شیخ زاید النیہان بلوچوں کو بہت پسند کرتے تھے، وہ بلوچوں کی دوستی، قربانی اور مخلصی و ایمانداری کے معترف تھے، اس لئے وہ دیگر اقوام کے بہ نسبت بلوچوں کے زیادہ قریب تھے اور بلوچوں کو اُنہوں نے نیشنلٹی بھی دی، آج تک بلوچ عرب امارات اور عربوں کے مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوئے ہیں، نہ ہی عرب مفادات کو نقصان دیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی غلط، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے تحت یو اے ای میں مقیم بلوچوں کے خلاف اس طرح کا رویہ سمجھ سے بالاتر نہیں، راشد حسین کا کیس پہلا کیس نہیں اس سے قبل بھی بلوچوں کی ساتھ اس طرح کی ناانصافی اور زیادتی ہوتی رہی ہے، عرب امارات نے پاکستان کی شکایات پر متحد بلوچوں کو ملک سے ڈی پورٹ کے علاوہ بغیر کسی جرم کے کئی بلوچوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔
عرب امارات کے اس عمل سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے دیرینہ ہمدرد دوست قوم بلوچ کے خلاف پنجابی کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں، دیکھا جائے پنجابی ہمیشہ عربوں کے خلاف استعمال ہوئے ہیں بلکہ خطے میں اُنکی عرب مخالف ممالک و قوتوں سے قریبی تعلقات ہیں، لیکن اُن کی ان تمام اقدامات کے باوجود عرب حکمرانوں کی جانب سے اپنے دیرینہ رفیق دوست بلوچوں سے زیادہ پنجابیوں کو ترجیح دینا اور اُنکی شاطرانہ، مکارانہ اور منافقانہ چالوں میں پھنسنا خطے میں بلوچ قوم جیسی ایک اہم دوست قوم سے محروم کرسکتی ہے، مستقبل قریب میں بلوچ قوم و عربوں کے تعلقات پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، یو اے ای کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النہیان اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کو چاہیئے وہ اپنے آباو اجداد کی نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوچ و عرب تعلقات کو مضبوط کریں، پنجابی کے ہاتھوں بلوچ قوم کیخلاف استعمال ہونے سے گریز کریں۔ پاکستان کی ایماء اور شکایت پر گرفتار کئے گئے راشد حسین سمیت دیگر تمام بلوچوں کو فی الفور رہا کیا جائے، اُنہیں پاکستان کے حوالے کرنے سے گریز کرکے اُنکی زندگیوں کو بچایا جائے۔
اگر یو اے ای بلوچوں کو عرب مارات میں رہائش، روزگار اور کاروبار کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں تو اس طرح انکی تذلیل کرنے، گرفتار کرنے، چادر و چار دیواری کی پامالی، بے عزت اور خوف میں مبتلا کرنے کے بجائے باعزت طریقے سے انہیں بتائیں اور انہیں عرب مارات سے نکلنے کے لئے باعزت اور محفوظ راستہ فراہم کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔