جسمانی طور پر معذور مگر ذہنی طور پر باہمت نادیہ قاضی درجنوں غریب لڑکیوں کی مدد و کمک کا سہارا بنی ہوئی ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ خضدار کے رپورٹ کے مطابق خضدار سے تعلق رکھنے والی نادیہ قاضی نے جسمانی معذوری کو اپنی مجبوری اور بے بسی بننے نہ دی اور نہ ہی غربت اور تنگدستی نے اُنکی عزم و حوصلوں کو توڑ سکی بلکہ وہ معذوری و غربت کے باوجود اپنی مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے ۔
نادیہ قاضی ہمت کی علامت ثابت ہوگئی ہے اور اُن لوگوں کے لئے بھی ایک مثال ہے جو معذوری، تنگدستی اور غربت کے ہاتھوں شکست تسلیم کرتے ہیں لیکن نادیہ قاضی نے شکست تسلیم کرنے کی بجائے معذوری اور بے بسی کو شکست دے دی ہیں ۔
اٹھائیس سالہ پیروں سے معذور نادیہ قاضی نے سلائی کڑائی سے اپنے تعلیمی اور گھریلو اخراجات کو پورا کرتی ہیں ۔
نادیہ قاضی نے اب ایک دستکاری سینٹر کی بنیاد رکھی ہیں جہاں 25 سے زائد غریب لڑکیاں ٹریننگ حاصل کررہی ہیں حکومتی اور دیگر تنظیموں کی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود اُنہوں نے اپنی مدد آپ کی تحت دستکاری سینٹر کی بنیاد رکھ کر ایک طرف اپنی اور دیگر غریب لڑکیوں بنیادی ضروریات پورا کررہی ہیں تو دوسری جانب بلوچ ثقافت ، کشیدہ کاری کو اجاگر کررہی ہیں جو ایک نوبل اقدام ہے۔
بلوچ رہنما میر جاوید مینگل کے فرزند اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن میر بہاول مینگل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹیوٹر پر اپنے ایک پیغام میں نادیہ قاضی کی ہمت و صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا ہیکہ جسمانی معذوری کے باوجود نادیہ قاضی نے خضدار بلوچستان میں بلوچی روایتی سلائی و کڑائی کی کام کو فروغ دینے کے لئے ایک تربیتی مرکز کی سیٹ اپ ترتیب دینے کے لئے جو اقدام اُٹھائے ہیں وہ قابل تعریف عمل ہے۔
Despite her physical disabilities,
Nadia Kazi of Khuzdar Balochistan has taken the initiative to set up a training center to encourage & promote traditional Balochi embroidery work👏,we should pass on such skills to our youth in order to keep our cultural values & heritage alive pic.twitter.com/Mkmkiii0dS— Bhawal Mengal (@BhawalMengal) January 18, 2019
اُنہوں نے مزید کہا ہیکہ ہمیں اس طرح کی ٹیلنٹ کا قدر کرنا چاہیے اور ہمارے نوجوانوں کو اپنے تہذیبی اقدار اور ورثہ کو زندہ رکھنے کے لئے آگے آنا چاہیے۔