خاموش راہ فراریت اور دستبرادری
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
مشاہدہ، مطالعہ، تحقیق اور تجربات سے اس مقام تک پہنچ کر اب میرا یہ عقیدہ اور ایمان بن چکا ہے کہ کسی بھی تحریک یا تنظیم کے زوال یا ختم ہونے کی بنیادی وجہ کبھی بھی دشمن کا جبر و بربریت، تشدد، قتل عام، گرفتاریاں، ٹارچر، حربے یا سازش وغیرہ نہیں ہوتا، بلکہ زوال و اختتام کی بنیادی وجہ ہمیشہ تحریک و تنظیم کے اندر خود غرضی، مصلحت پسندی، سستی، کاہلی، غیرذمہ داری، بے حسی، لاپرواہی، آزادخیالی، الجھن اور بیوروکریٹک سوچ و رویئے اور رجحانات ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ اور خاص کر تحریکی تاریخ کے صفحات کو جھنجھوڑ کر یا الٹ پلٹ کر صحیح معنوں میں سیکھنے اور سمجھنے کے بعد آخر کار انسان اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ تنظیم اور تحریک کبھی بھی دشمن کے تشدد اور بے رحمی سے ختم اور کمزور نہیں ہونگے بلکہ مزید مستحکم اور توانا ہونگے، مگر غیرذمہ داری، آزادخیالی، بے حسی، عدم توجہ اور عدم دلچسپی سمیت خاموش راہ فراریت اور دستبرداری دراصل تحریک و تنظیم کے خاتمے اور زوال کا سبب ہوتا ہے۔
دشمن کا جبر ایک آندھی کی مانند ہوتا ہے، اگر درخت تناور ہو اور اسکے جڑ مضبوط ہوں تو کوئی آندھی و طوفان اسے نا توڑ سکتا ہے نا جھکا سکتا ہے، ہاں وقتی طور پر شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں لیکن کم مدت میں ہی انکی جگہ نئی شاخیں جنم لیتی ہیں لیکن تحریک کے اندر منفی رویئےدیمک کے مانند ہوتے ہیں، جو تحریک کے جڑوں کو اندر سے چاٹ کر اسے کھوکھلا کردیتی ہے، پھر معمولی سا جھونکا ہی تحریک کے شجر کو زمین بوس کردیتا ہے۔
آج ذرا بھی جرت اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جائے اور غور کیا جائے، یہ تلخ حقیقت روز روشن کی طرح بالکل واضح ہوچکا ہے کہ بلوچ قومی تحریک میں ایک مخصوص طبقہ دشمن کے دباو، خوف، تکلیف و مشکلات سے گبھراہٹ کا شکار ہوکر لالچ، آرام، سکون، آسائش کے عوض غیر اعلانیہ خاموشی سے تحریک سے مکمل راہ فراریت اختیار کرکے دستبردار ہوچکے ہیں، گوکہ ظاہری طور پر یا چند وقت کے لیئے، کچھ مدت تک سادہ لوح بلوچوں، خاص طور پر معصوم نوجوانوں کو مختلف حیلے بہانوں، دھوکا دہی، جھوٹ، فریب نما تاویلوں کے ذریعے گمراہ، بے وقوف اور احمق بنا دینگے مگر حقیقت جلد واضح ہوگا، یہ سارے بہانے جواز اور من گھڑت دلیلیں جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں تھے۔
میں بذات خود ایک بار پھر انتہائی غور و خوض سے جب انقلاب چین کا مطالعہ کررہا تھا، تو وہاں بھی ایسے خاموش راہ فراریت اختیار کرنے والے اور دستبرادر انقلابی رہنماوں اور کارکنوں کی بیوروکرٹیک، آزاد خیال، غیرذمہ دار، سست اور کاہل رویوں کے بارے میں پڑھا تو مجھے ہوبہو کئی چہرے بلوچ قومی تحریک میں بھی آج صاف و شفاف نظر آنے لگے لیکن پھر بھی انقلاب چین زوال پذیر اور ختم نہیں ہوا بلکہ کامیاب رہا۔ اس کی بنیادی وجہ دوسری طرف مکمل انقلابی رویے اور رجحانات شدت کے ساتھ موجود تھے، خاموش دستبرداری اور راہ فراریت والے رویے اور رجحانات تحریک اور تنظیم پر حاوی اور اثرانداز نہیں ہوئے، بلوچ قومی تحریک آج اس مقام پر کھڑا ہے، جہاں ایک طرف مکمل دشمن کی زوآوری ہے، دوسری طرف تحریک میں خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رجحانات لیکن حوصلے اور کامیابی کی امید اس بات کی ہے کہ ایک طرف بلوچ نوجوان انقلابی سوچ و فکر سے لیس قربانی کے جذبے سے برسرپیکار، بغیر الجھن کے پر عزم اور پرامید ہوکر دشمن کے خلاف سینہ سپرہوکر لڑرہے ہیں اور قربان ہورہے ہیں، یہی سوچ و احساس اور رجحان خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رویوں کو زائل کرکے ان کے اصل چہروں کو نوجوانوں اور قوم کے سامنے بے نقاب کردیتی ہے۔
اس وقت ایسے خاموش فراریوں اور دستبرادری کے رویے اور رجحانات کا پلڑا بھاری ہوگا اور منفی اثرات قوم اور نوجوانوں پر زیادہ تر نفسیاتی طور پر اثرانداز ہونگے، جب ہر طرف بے حسی، خوف، خود غرضی، غیر ذمہ داری، بیوروکریٹک سوچ، آرام و سکون اور زندگی کو بچانے والے رجحانات کا بازار گرم ہو۔ پھر یہ محرکات تحریکوں اور تنظیموں کے موت اور زوال ثابت ہوتے ہیں، پھر دشمن بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف تماشہ دیکھے کیونکہ ایسی خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رویئے خود تحریک اور تنظیم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں۔
خاموش دستبرداری اور راہ فراریت کے رویوں اور رجحانات کی تحریکوں اور تنظیموں میں کچھ مختصر علامات قابل ذکر ہیں، جو آپ کو ہر تحریکی تاریخ میں ملتی ہیں اور آج بلوچ قومی تحریک میں بھی موجود ہیں۔
سب سے پہلے تحریک کے ساتھ وابستہ رہ کر بھی غیر متحرک اور غیر فعال رہنا یعنی قوم اور تحریک کے لیئے کچھ بھی قابلِ ذکر نا کرنا، صرف وقت پاسی، باتیں و بحث و مباحثہ کرنا اور باتوں میں بھی زیادہ تر نقطہ چینی کرنا، کیڑے نکالنا، مایوسی، ناامیدی، الجھن پھیلانا۔
ہمیشہ خود سست، کاہل، غیر ذمہ دار، خوف زدہ رہنا اور ہر وقت اپنی جان کی حفاظت، پرآسائش، پرسکون زندگی اور ماحول کا خواہش مند رہنا اور بیوروکریٹک زندگی گذارنے کا طلب گار ہونا اور تحریک اور تنظیم کو صرف مراعات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھنا۔
خود قوم، تنظیم اور تحریک کے لیئے چند منٹ سرگرم نہیں رہنا، لیکن تحریک میں اپنے لیئے اعلیٰ مقام کا طلبگار رہنا۔
تحریک کے ساتھ جڑ کر بھی اپنے عمومی زندگی کی تمام راہیں اور آسائشیں ہموار رکھنا، تحریک میں کمزوری کا کوئی بھی شائبہ دیکھنے کے بعد سب پر الزام لگا کر اپنے تعمیر شدہ عمومی زندگی پر گامزن ہوجانا۔
اپنی تمام تر کمزوریوں اور نالائقیوں، راہ فراریت چھپانے کیلئے پوری تحریک کے ہر پہلو پر نکتہ چینی کرکے خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔
اپنے راہ فراریت کی راہ ہموار کرنے کیلئے، تحریک کو ناکام و کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرکے مایوسی پھیلانے کی کوشش کرنے، یہ ثابت کرنے کرنے کی کوشش کرنا کی جتنا چاہے جہد ہو تحریک کے بازوں میں اتنی قوت نہیں کہ وہ از خود کامیاب ہو تاکہ اسکے دستبرداری کو بھی تدبر سمجھا جائے۔
بہرحال کسی بھی تحریک اور تنظیم میں خاموش راہ فراریت اور دستبراد رویے تحریک اور تنظیم کے لیئے دشمن کی فوج اور جاسوسوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، ایسے رویے تحریک کو اندر سے مکمل کھوکھلا کردیتے ہیں، ان کے منفی اور گند آلود اثرات مایوسی اور الجھن کے شکل میں دیگر نوجوانوں پر پڑتے ہیں۔
ہمیشہ تنظیم اور تحریک میں ایسے رویوں اور رجحانات کی انتہائی بے رحم انداز میں بیخ کنی کرنا ہر حقیقی جہدکار کا فرض ہوتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔