افغان طالبان نے کہا ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں دولت اسلامیہ یا داعش امن کےلیے کوئی بڑا خطرہ ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ امن معاہدے کی صورت میں وہ ایک ماہ میں افغانستان سے داعش کا مکمل طورپر صفایا کرسکتے ہیں۔
افغان طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے عالمی نشریاتی کو بذریعہ ٹیلی فون خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے الزام لگایا کہ داعش کو افغان حکومت اور امریکہ کی مدد و حمایت حاصل ہے اور یہ وہ نہیں کہہ رہے بلکہ افغان حکومت میں شامل ان کے اپنے ممبران پارلمینٹ بار بار یہ بات میڈیا پر دہرا چکے ہیں۔
ان کے بقول ‘ افغانستان میں داعش کبھی بھی کوئی بڑی قوت نہیں رہی ہے، ہم حال ہی میں افغانستان کے شمال سے ان کا خاتمہ کررہے تھے لیکن امریکہ اور افغان حکومت ان کو دوسری جگہوں پر لے گئے اور ان کو ایک مرتبہ پھر سے زندہ کردیا۔’
انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں ان کی امریکہ اور افغان حکومت سے کوئی جنگ نہ ہوں تو پھر داعش کا کام وہ ایک ماہ میں تمام کرسکتے ہیں۔
امریکہ کے ساتھ جاری حالیہ مذاکرات کے ضمن میں بات کرتے ہوئے سہیل شاہین نے تصدیق کی اب تک کی بات چیت میں امریکہ کے افغانستان سے انخلاء اور افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے پر بات ہوئی ہے اور اس پر اصولی طورپر دونوں جانب سے اتفاق بھی ہوچکا ہے۔
ان کے مطابق اس ضمن میں دو ورکنگ گروپس بھی بنائے گئے ہیں جو آنے والے دنوں میں اس پر بات کرینگے اور پیش رفت کا جائزہ لینگے۔
‘ہم افغانستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں ایسا امن جس پر کسی جانب سے بھی کسی کو کوئی شک نہ ہو۔ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان میں پھر سے نوے کی دہائی والی حالت دہرائی جائے جب خانہ جنگی سے بڑا نقصان ہوا تھا۔ ‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ انہیں افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے میں کیا حرج ہے تو اس پر انہوں نے وضاحت کی کہ ان کے خیال میں افغان معاملے کے دو رخ ہیں، ایک خارجی اور دوسرا داخلی۔
‘ ہم امریکہ سے مذاکرات کررہے ہیں اور جب یہ کامیاب ہونگے تو دوسرے مرحلے میں افغان حکومت سے بات چیت ہوسکتی ہے۔ لیکن فی الوقت ہم نے حالیہ مذاکرات میں افغان ادارے کو بحثیت ایک فریق یا سٹیک ہولڈر کے تسلیم نہیں کیا ہے۔’
ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ انہوں نے مکمل طورپر افغانوں سے خود کو الگ تلگ نہیں رکھا ہوا ہے بلکہ اگلے ماہ ماسکو میں ہونے والی کانفرس میں وہ پھر سے افغانستان کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرینگے لیکن وہ تمام افراد افغان حکومت کا حصہ نہیں ہونگے۔
سہیل شاہین نے مزید کہا کہ فی الحال افغان حکومت کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے لیکن طالبان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی مضبوط حکومت قائم ہو جس سے خطے میں مکمل امن اور خوشحالی آیے اور عوام سکون کی زندگی گزارسکیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مضبوط حکومت کے قیام پر وہ افغان رہنماؤں سے مشاورت کررہے ہیں۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ بات کی جاتی ہے کہ افغانستان کے امن میں اس کے پڑوسی ہمیشہ سے بڑی روکاٹ رہے ہیں تو کیا اس مرتبہ ہمسایہ ملک روکاٹ نہیں بنیں گے، سہیل شاہین نے کہا کہ یہ بے بنیاد الزامات ہیں اس میں بظاہر کوئی حقیقت نظر نہیں آتی۔
‘ اگر افغانستان میں ایک مضبوط حکومت قائم ہوتی ہے تو ہماری خواہش ہوگی کہ اس کے اپنے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم ہوں، ہر ملک کا اپنے قومی مفادات ہوتے ہیں لیکن ہمیں افغانستان کا قومی مفاد اہم ہے اور اسی دائرہ کار کے اندر رہ کر ہمیں تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں تجارت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔’
انہوں نے کہا کہ امن معاہدے کی صورت میں اقوام متحدہ، روس ، چین اور اسلامی ممالک کی تنظیم ضامن کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔