اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے صدر ماریہ فرنانڈو اسپینوزا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے بلوچستان کا دورہ کریں اور اصل حالات سے آگاہی حاصل کریں لاپتہ افراد کے لواحقین سے مل کر وہ ایک امید کی کرن پیدا کرسکتے ہیں ۔ ترجمان بی این ایم
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے صدر ماریہ فرنانڈو اسپینوزا کا دورہ اسلام آباد جاری ہے لیکن ابھی تک دورے کی شیڈول سامنے نہ آسکی جس سے اندازہ ہوجائے کہ وہ بلوچستان کا دورہ کریں گے یا نہیں اگر انہوں نے بلوچستان کا دورہ نہیں کیا تو یہ انسانی المیے سے دوچار بلوچستان کے ساتھ بڑی ناانصافی اور ان کے عہدے کے تقاضوں سے منافی عمل ہوگا کیونکہ محکوم اور مظلوم قومیں ابھی انتظار میں ہیں کہ کب وہ اپنا اصولی فریضہ ادا کرکے بلوچستان سندھ اور پشتونستان کا دورہ کریں گے جہاں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کی موجودگی سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے یہ علاقے بدترین دہشت کی زد میں ہیں اور یہ دہشت و دہشت گردی کسی دہشت گردگروہ کی جانب سے نہیں بلکہ براہ راست پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے جانب سے کی جارہی ہے ایسے میں صرف اسلام آباد کی یاترا اقوام متحدہ کے اصول و ضوابط سے عاری اور دنیا کے حالات سے بے خبری کی مثال اور ثبوت ہونگی۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ دنیا میں قومی مسائل کے لئے قیام میں لایا گیا اور اقوام متحدہ کے چارٹر محکوم قوموں کو آزادی کا ضمانت دیتا ہے لیکن آج بڑی طاقتوں اور عالمی گٹھ جوڑ نے کئی ایسے بحران پیدا کئے ہیں کہ چھوٹی قوموں پر ہونے والی مظالم اقوام متحدہ جیسے بڑے ادارے کی نظروں سے اوجھل ہیں اگر اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے صدر ماریہ فرنانڈو اسپینوزا اسی روایت کو برقرار رکھ کر بلوچستان کی صورتحال کو نظر انداز کرکے صرف اسلام آباد کے سخت سیکورٹی زون میں پاکستانی حکمرانوں کے جھوٹی بریفنگ پر اکتفا کرتے ہیں توکسی بھی عنوان پروہ اپنے منصب سے انصاف نہیں کرپائیں گے اور مظلوم بلوچ پشتون اور سندھیوں کے انسانی بحران اورالمیے میں ان کی کردار پر ایک بدنما داغ اور سوالیہ نشان بن کر یاددہانی کرتا رہے گا کہ عالمی ادارے کے اہم منصب دار نے مظلوموں قوموں کے بجائے جابر ریاست کے بیانئے کو تقویت بخشی جس سے محکوم اور مظلوم قوموں کا اقوام متحدہ جیسے ادارے پر یقین اور اعتماد کا ختم ہونا یقینی امر ہوگا۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضہ کے اکہتر سال کالونی جیسا برتاؤ پانچ فوجی آپریشن اور ننگی جارحیت نے بلوچوں سے زندگی کے تمام ذرائع چھین لئے ہیں بلوچ قوم معاشی سیاسی تعلیمی اور ثقافتی استحصال کا شکار ہے پانچوان فوجی آپریشن بیس سالوں سے جاری ہے جو جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالتے ہی شروع ہوا بیس سالوں میں چالیس ہزار سے زائد لاپتہ دس ہزار کے قریب شہید اور دس لاکھ بے گھر ہوکر آئی ڈی پیز بن کر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کئی بیرون ملک سیاسی پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں لاپتہ افراد جو لاپتہ نہیں بلکہ پاکستان کے خفیہ زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں کے بارے میں ہم نے کئی دفعہ حقائق اور رپورٹ سامنے لائے ہیں، مشرف دور میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے چار ہزار بلوچوں کو حراست میں لینے کا اعتراف کیا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، بلوچستان میں ڈاکٹر مالک اور ثنااللہ زہری کے حکومت کے دوران ان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اگست 2016 میں کہا کہ ڈھائی ہزار سے زائد آپریشنز میں 13,575 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے دسمبر 2015 صوبائی سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے 9000 سے زائد افراد کو حراست میں لینے کا اعتراف کیا صرف یہی تعداد 27000 سے زائد ہے جسے خود حکومت اعتراف کر چکی ہے مگر آج تک ان میں سے کسی ایک کو بھی منظر عام یا عدالت کے سامنے نہیں لایا گیا۔
بی این ایم ترجمان نے کہا کہ اتنے سنگین جرائم اگر عالمی اداروں اور خاص کر اقوام متحدہ کی نظروں سے اوجھل ہوں تو نہایت افسوسناک عمل ہوگا ہم اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے صدر ماریہ فرنانڈو اسپینوزا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے بلوچستان کا دورہ کریں اور اصل حالات سے آگاہی حاصل کریں لاپتہ افراد کے لواحقین سے مل کر وہ ایک امید کی کرن پیدا کرسکتے ہیں اس ضمن میں ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان پر نسل کشی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر عالمی اصولوں کے مطابق کیس دائر کرکے بلوچوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بلوچستان کے تحریک آزادی کا حمایت کی جائے جو ہر بلوچ کا مطالبہ اور قانونی و پیدائشی حق ہے۔