کاروان جنرل اسلم جاری رہے گا – بالاچ بلوچ 

445

کاروان ِ جنرل اسلم جاری رہے گا 

تحریر : بالاچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

۲۵ دسمبر کو ہونے والے سانحے نے پوری بلوچ قوم سمیت مظلوم قوموں کو ان کے حقوق اور آزادی کے جدوجہد کو ایک ایسا زخم دیا جو شاید صدیوں میں بھی نہ بھرا جاسکے کیونکہ اُس دن ہم نے بحثیت قوم ایک ایسا رہنما کھویا جو شاید بلوچ تحریک میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔

کیا اب ہم غم و ماتم کرکے خود کو کمزور کرکے اپنے راہنما کی تعلیمات کے ساتھ ایمانداری کر رہے ہیں؟ کیا دنیا کی تاریخ ہمیں نہیں بتاتی کے بھگت سنگھ انکے ساتھی، چندر شیکھر آزاد، عمر مختیار، نواب اکبر خان بگٹی، نوابزادہ بالاچ خان مری، چیئر مین غلام محمد اور انکے ساتھی یہاں تک بابائے آجوئی بھی جاری جدوجہد کے دوران ہم سے جسمانی طور پر بچھڑ گئے لیکن کیا تحریک رکی؟ یا ہم نے اپنے آپ کو مزید توانا کیا؟ بس اسی سوال کو سوچنا ہوگا کہ کیا اگر اُستاد چاہتے تو وہ ایک آرام دہ زندگی بھی بسر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اور ساتھیوں نے آزادی یا شہادت کو اپنا ایمان بنالیا تھا اور وہ اپنے منزل کی طرف گامزن تھے۔

اب ہمیں سمجھنا ہوگا کہ استاد اسلم کی تعلیمات اور فکر ہر غیور بلوچ فرزند کے لیے مشعل راہ ہے، آؤُ ہم سب عہد کریں کہ ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور پختگی سے استاد کے کارواں کو پاک وطن بلوچستان کی آزادی تک اسی خوبصورتی سے رواں دواں رکھیں گے، استاد اسلم بلوچ اور ساتھیوں کی قربانی نے جہد آزادی کو ایک نئی روح بخشی ہے، اور آنے والی نسلوں کے لیئے مشعل راہ ہے، آئیں سب مل کے عہد کریں کہ اپنے ناپاک دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا دیں اور اپنے لہو سے اس چراغ کو بجھنے نہ دیں۔

آج نہ صرف استاد اسلم بلوچ اور دیگر شہداء نے اپنے جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مادر وطن بلوچستان کے لیئے جام شہادت نوش کیا بلکہ آئندہ نسلوں اور تحریک کو مزید تواناں کرتے ہوئے ایک نئی روح بخشی، اب یہ ہم سب بلوچ فرزندوں کی ذمہ داری ہے کہ استاد کی دی گئی تربیت کی پیروی کرتے ہوئے تحریک اور اس قافلے کو اسی سچے جوش و جذبے کے ساتھ مادر وطن بلوچستان کی آزادی تک اسی خوبصورت انداز میں جاری رکھیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔