“پاکستان بچاؤ، اللہ نظر مردہ باد کہو”
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
ایک طرف بلوچ وطن کے شہید فرزند کے بزرگ و سفید ریش والد متحرم، انکا گرا ہوا دستار، دوسری طرف کھڑے پریشان اور افسردہ حال ایک معصوم پرانے اور خاکی کپڑوں میں ملبوس لڑکے کی پرغور اور نگاہِ نفرت سے تکنے کا دلخراش منظر اور واقعہ ضرور مجھ جیسے بے حس انسان کو اگر زلزلے کا جھٹکا نہیں، کم از کم دل دہلانے کا باعث ضرور بنا۔ لیکن یہ واقعہ کسی کے لیئے بھی نئی نہیں، کم از کم میرے لیئے کوئی حیرت انگیز اور انوکھا واقعہ نہیں کیونکہ میں سقوط ڈھاکہ بنگلہ دیش اور بنگال کے ماضی قریب کے تاریخ سے واقف ہوں۔ وہی پاکستان، وہی پنجابی قوم، وہی پاکستانی فوج اور وہی پاکستانی فوج کا تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ، فرق صرف اتنا سا ہے کہ وہاں الشمس و البدر یہاں مسلح دفاع و تحریک نفاذ، وہاں بنگالی یہاں بلوچ، وہاں سقوط ڈھاکہ، یہاں سقوط بلوچستان باقی کچھ نہیں بدلا۔
کل سے سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو خوب وائرل ہوچکا ہے، مجھے بھی ایک دوست نے ویڈیو روانہ کیا دیکھنے کے بعد ویڈیو کی تفصیل اور حال حقیقت جاننے کے لیے میں ادھر ادھر پوچھنے لگا، مختلف ذرائع سے تب پتہ چلا کہ بلوچستان کے شورش زدہ ذرخیز و مردم خیز علاقہ مشکے گجلی میں سردار علی حیدر محمد حسنی کی سربراہی میں پاکستانی فوج کے تشکیل کردہ مسلح دفاع یا ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے چند اہلکاروں نے ایک سفید ریش بزرگ بلوچ سے زبردستی پاکستان آرمی زندہ باد اور ڈاکٹر اللہ نظر مردہ باد کا نعرہ لگوانے کا کہہ رہے تھے، جس کے جواب میں بزرگ بلوچ ڈاکٹر اللہ نظر زندہ باد کہتا ہے جس پر ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار بزرگ بلوچ پر تشدد کرتے نظر آرہے ہیں۔
مختلف ذراہع سے پتہ چلا بزرگ بلوچ کا نام گل محمد بلوچ ہے جو کہ مشکے گجلی کا رہائشی ہے اور شہید لشکر بلوچ کے والد ہیں۔ شہید لشکر بلوچ، بلوچ قومی تحریک آزادی کے ایک جانثار فرزند ہوکر قومی آزادی کی راہ میں قربان ہوچکا ہے۔
کم از کم مجھے ایسے بزدلانہ، سفاکانہ اور گھٹیا حرکتوں سے بحثیت انسان اور بحثیت بلوچ تکیلف تو ہوتا ہے، مگر اس حدتک نہیں کیونکہ یہی تمام حرکتیں حربے، غنڈی گردی، بربریت، بنگلہ دیش میں بھی بنگالیوں کے ساتھ ہوئے ہیں، نتیجے میں دنیا کے نقشہ پر آزاد بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ تو مجھ سمیت پوری بلوچ قوم اس وقت بلوچستان کی آزادی کی قیمت ادا کرنے کے لیے اس واقعے سے بڑھ کر بھی سب کچھ سہنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ آج بلوچ قومی آزادی کے خواب کو ہر بلوچ اپنی آنکھوں میں رکھ کر ایسے واقعات کو سہتے ہوئے آرہا ہے۔ اس امید و انتظار کے ساتھ کہ بے شک گھٹاٹوپ اندھیری رات جتنی بھی طویل ہو مگر صبح ضرور طلوع ہوگا۔
ویسے بھی جبر و بربریت اور خاص کر ایسے بزدلانہ نفسیاتی طور پر شکست خوردگی اور حواس باختگی کی پاداش میں قابض فوج یا اس کے زرخرید ایجنٹوں کی سیاہ و گھٹیا کرتوتوں سے قومی آزادی کی تحریک اور جنگیں مزید صحت مند ہونگے۔
باقی بلوچستان میں روزانہ کے بنیاد پر کیا ہورہا ہے یا کیا ہوا ہے، وہ ایک طرف رکھ کر حالیہ اس واقعے کو دیکھیں کہ سفیدریش بلوچ ہوتے ہوئے، دوسرا ایک شہید کے والد کے ساتھ جو بھی ہوا ہے، تو دیکھنے والوں کا نفرت و غصہ کہاں اور کس طرف اور حمایت و ہمدردی کہاں اور کس طرف، اس واقعے کا سب سے اہم پہلو یہی ہے جو آج یا زیادہ سے زیادہ کل ضرور بلوچ قومی تحریک یا بلوچ قومی جنگ پر اپنے مثبت اثرات مرتب کریگا۔
میں دوبارہ بنگالی قوم کی مثال پیش کرتا ہوں 70 کی دہائی میں بنگالی قوم بشمول بنگالی لیڈر شیخ مجیب صاحب کس حد تک، کہاں تک بنگلہ دیش کی آزادی کے نظریے کو لیکر بنگال کی مکمل آزادی کے لیئے خواہش مند تھے، مگر جب ایسے قسم کے بربریت، ناروا سلوک، دلخراش اور باعث تکلیف واقعات پہ در پہ رونما ہونے لگے تو نتیجے میں بنگالی قوم کی قومی تحریک و قومی جنگ کی زبردست کامیابی اور پنجابی قوم اور پاکستان فوج کی عبرتناک شکست بھی آج تاریخ کا حصہ ہے۔
بنگالیوں کی تاریخ بتاتی ہے جب پاکستان کے خلاف بنگالیوں کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو اس وقت باقاعدہ پاکستانی فوج کے افسران وہاں کے ڈیتھ اسکواڈ الشمس و البدر کے کارندوں کو اس بات پر ہدایت و حکم دیتے تھے کہ کوشش کرو ہر بنگالی کے گھر میں گھس کر باپ، بیٹے، بھائی اور شوہر کے سامنے ماں بہن بیٹی اور بیوی کی عصمت دری کرکے ان کو شدید تشدد کا نشانہ بناو اور اس وقت بنگلہ دیش میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے انسانیت سوز واقعات رونما ہوئے اور اسی طرح الشمس اور البدر والے زبردستی بنگالیوں سے پاکستان آرمی زندہ باد اور شیخ مجیب الرحمان و مکتی باہنی اور انڈیا مردہ باد کے نعرہ لگواتے تھے پھر کیا ہوا؟ زبردستی مردہ باد سے نہ شیخ مجیب مردہ ہوا نہ کہ مکتی باہنی والے، نہ انڈیا مردہ ہوا اور نہ ہی زبردستی پاکستان آرمی زندہ باد کے نعرہ لگوانے سے بنگلہ دیش میں پاکستان اور پاکستان آرمی زندہ ہوگیا۔ البتہ آج تک تاریخ میں شیخ مجیب الرحمان و مکتی باہنی اور بنگالی قوم زندہ اور سرخرو ہیں۔
زور زبردستی بلوچ قومی رہنماء ڈاکٹر اللہ نظر کو مردہ باد کہنے سے اللہ نظر اور بلوچ قومی تحریک مردہ نہیں ہونگے بلکہ مزید توانا ہونگے اور زبردستی پاکستان آرمی زندہ باد کے نعروں سے نہ پاکستان آرمی بلوچستان میں زندہ ہوگا، نہ ہی زبردستی نعروں سے بلوچستان میں اب پاکستان کا وجود کا بچاو ہوگا۔
کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، بالکل بنگلہ دیش کی تاریخ دوبارہ بلوچستان میں اپنے آپ کو دوہراتا ہوا نظر آرہا ہے، اب بلوچ قیادت اور جہدکاروں پر یہ بات منحصر ہے، وہ اس موقع اور تاریخ ساز دور سے کیا حاصل کرینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔