وطن کے پروانے – علیزہ بلوچ

598

وطن کے پروانے

علیزہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عشق کیا چیز ہے یہ پوچھئے پروانے سے

زندگی جس کو میسر ہوئی جل جانے سے

موت کا خوف ہو کیا عشق کے دیوانے کو

موت خود کانپتی ہے عشق کے دیوانے سے

حوصلہ وہ صفت ہے جو خوف کی موجودگی میں بھی اطمینان اور استحکام کے ساتھ مخالفتوں اور خطرات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے۔ ذاتی نفع و نقصان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق بات کی سربلندی کے لئے کھڑے ہو کر رازق، ازل، اور رئیس نے جو بہادری و جرأت کا مظاہرہ کیا ہے بلکل اسی طرح ریحان جان، فتح اور ان جیسے کئی بلوچ سرمچاروں نے، جنکا اگر میں نام لکھنا شروع کروں تو ختم ہی نہ ہو جنہوں نے مادر وطن بلوچستان کی آزادی کے لیئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

رازق ازل اور رئیس نے مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے حق سچ کی حمایت کی۔ انہوں نے اپنے وطن سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا، اپنے فرض اور تنظیم کے مشن سے اپنی وابستگی کو ذاتی احساسات اور خواہشات سے بالاتر رکھ دیا۔ اور کیوں نہ رکھتے آخر جن کی تربیت میں انہوں نے ایسا دلیرانہ فیصلہ کیا وہی تو ان خوبیوں کے مالک ہیں.

کہتے ہیں ایک لیڈر کو دلیرانہ مگر سوچے سمجھے خطرے مول لینے پر ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے۔ اس ذمہ داری کو حاصل کرنے اور اس کے لئے ضروری قیمت چکانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہیئے۔ فرانسیسی لیڈر چارلس ڈیگال نے کہا تھا کہ جب چیلنج کا سامنا ہو تو صاحب کردار لیڈر اپنے باطن کا رخ کرتا ہے اور صرف اپنے آپ پر تکیہ کرتا ہے۔ خودانحصاری کے خوگر لیڈر کو مشکلات میں ایک خاص کشش محسوس ہوتی ہے کیونکہ صرف مشکلات کا مقابلہ کر کے ہی وہ اپنی صلاحیتوں کی آزمائش اور افزائش کر سکتا ہے۔ فیصلے کی گھڑی میں وہ گھبراتا نہیں.

جس طرح پہل کاری سے استاد اسلم نے اپنے بیٹے ریحان کی قربانی دے کر اپنی صلاحیتوں کی آزمائش اور افزائش کا استقبال کیا ہے، شاید ہی کسی نے کیا ہو. تاریخ لیڈروں کی بہادری کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، لیکن تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جب موت اور زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار ملنے پر لیڈروں نے اپنے مؤقف کی سربلندی کے لئے اپنی زندگی قربان کرنا قبول کر لیا۔ سیاست میں خطرات مول لینے سے مراد حوصلہ مندی اور درست وقت پر فیصلہ کرنے کا ارادہ اور اہلیت ہے۔

شہید فتح کی یاد تازہ کرتے ہوئے شکست، ناکامی اور خوفِ زیاں سے گھبرائے بنا رازق ازل اور رئیس دشمن کے گھیرے میں جس وقت داخل ہو رہے تھے تو اس وقت کس قدر فخر کا احساس ہو رہا تھا، میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ میں خود کو بہت ہی خوش نصیب محسوس کرتی ہوں جب میں یہ سوچتی ہوں کہ میں اس قدر دلیر و بہادر قوم سے تعلق رکھتی ہوں. اس طرح کی دلیری یہ حوصلہ…. میرے پاس لفظوں کی کمی ہو جیسے. مجھے ونسٹن چرچل کی ایک بات یاد آ رہی جب انہوں نے حوصلے پر گفتگو کرتے ہوئےکہا۔ ’’ہمت و حوصلے کے بغیر دوسری تمام اچھی خصوصیات بے معنی ہو جاتی ہیں۔‘‘ رازق ازل اور رئیس کے اسی حوصلے ہمت اور دلیری نے انکی تمام خصوصیات کو اور اجاگر کر دیا. ساری زندگی ہموار راستوں پر سفر کرنے والوں کی ذات میں قوت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ بہاؤ کے ساتھ تیرنے کے بجائے مخالف رخ تیر کر اپنی قوت بڑھانا چاہیئے۔

انسان کی کامیابی اس کی جسمانی ساخت سے ہرگز مشروط نہیں ہے، کامیابی کے لیے ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ غیر متزلزل یقین، مصمم ارادہ اور آگے بڑھنے کی صلاحیت و خواہش بہت ضروری ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو کامیابی کے سفر میں رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کرتے وہ غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں.

شہید ازل خان اور رئیس جان سے کبھی بات نہیں ہوئی تھی، مگر شہید رازق سے جڑی کچھ یادوں کو ضرور بیان کرنا چاہوں گی. شہید رازق جسے میں جلال کے نام سے جانتی تھی ہمیشہ میدان جنگ کے ساتھ ساتھ فیس بک کی دنیا میں بھی ایکٹو رہا کرتے تھے۔ اس بنا پر ان سے کافی اچھی جان پہچان تھی اور کبھی کبھار حال احوال بھی ہوا کرتا تھا. انکی خوبصورت شاعری اور شعور سے بھر پور تحریریں ہمیشہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنتی رہی ہیں. ایک اچھے دوست اور بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی شاعری اور تحریروں سے ہم میں ہمیشہ شعور بانٹا ہے. ہنسی مذاق کے علاوہ ایک مہربان استاد کی طرح ہمیشہ نصیحت آموز اسباق سے نوازتے تھے. ہمیں یہ تو پتہ ہے کہ شہید کبھی مرتے نہیں وہ جاوداں ہوتے ہیں. وہ تو تاریخ میں زندہ رہ گئے، اپنے عظیم مقصد کے ساتھ ہمارے روشن مستقبل کے ساتھ لیکن جسمانی طور پر جو ان کے جدائی کی تکلیف ہوتی ہے وہ بہت اذیت ناک ہے. ہم میں شعور بانٹنے والے ہی ہم سے جدا ہو رہے ہیں، یہ احساس باعث تکلیف ہوتی ہے مگر زندگی تو نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔ ہماری زندگی میں خوشی و غم کے لمحات تو آتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمارے ارد گرد تاریکیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب کبھی سحر کا منہ دیکھنا ہی نصیب نہ ہو۔ لیکن ایسے میں ایک جگنو بھی نظر آ جائے تو پھر سے اُمید بندھ جاتی ہے، اسی اُمید (ریحان ،رازق، ازل، رئیس) نے ہمیں دوبارہ جینے کا اور کوشش کرنے کا حوصلہ فراہم کیا ہے.

بہت کم لوگوں میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے جو خود کی ذاتی خواہشات کو ایک طرف رکھ کر وطن کی آزادی جیسے عظیم مقصد کی خاطر ہمیشہ کے لیے وطن پر قربان ہوں. مگر جب فیس بُک پر آن لائن ہوتے ہی اس خبر پر نظر پڑی تو حیران رہ گئی یقیناً جلال کو لے کر میرے جیسے سوچ والے اور بھی دوست حیران رہ گئے ہوں گے کہ جلال جسے ہم صرف ہنسی مذاق کی حد تک ہی سمجھتے تھے، آج اس نے پوری دنیا کو دکھا دیا، بلوچ کس قدر بہادر ہیں کہ اپنے حق کے لیئے وہ کسی بھی حد کو پار کرنے سے گھبراتے نہیں، نہ ہی ان کے قدم ڈگمگاتے ہیں. جلال نے اپنا قول سے ثابت کر دیا آج، اور تب جلال کی وہ ریحان کی طرح قربان ہونے والی بات یاد آئی اور اس بات کا احساس ہوا کہ ریحان نے اپنا جسم فنا کر کے اپنی ذاتی خواہشات وطن پر قربان کر کے اپنی سوچ سے ہمیں ہمت اور حوصلہ بخش کر کئی اور ریحان پیدا کر دیئے جن کا مثال رازق جان، رئیس جان اور ازل جان ہیں. اور اب رازق ازل اور رئیس کی محب وطنی نے ہمیں دشمن کے خلاف مزید طاقت و قوت میسر کی۔

انسان میں موجود عزم و حوصلہ چٹانوں سے ٹکرانے اورطوفانوں کا رُ خ موڑنے کی ہمت پیدا کردیتاہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جسے مشکلات کا سامنا نہ ہو مشکل کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے. صرف خواہشات کا ہونا کافی نہیں ہے ان خواہشات کے حصول کے لیے اپنے سامنے موجود رکاوٹوں کو بڑے حوصلے اور استقامت سے پھلانگنا پڑتا ہے، دشمن ریاست کو اب اپنی فکر کرنی چاہیئے کہ بلوچستان لاوارث نہیں ہے، بلوچستان نے ہمیشہ بہادر سپوتوں کو جنم دیا ہے اور ہمیشہ اس سے بہادر دلجان، امیر المک، فتح، گزین، مجید، شہیک، شاہین، حق نواز، حمید، علی شیر، ریحان، ازل، رئیس اور رازق جیسے بہادر جنم لیتے رہیں گے.

بلند جذبات و سوچ کے مالک افراد ہی زندگی کی کامیابیوں کو آسانی سے چھو سکتے ہیں، کیونکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جن کے جذبات کے راستے اگر ہوا رکنے لگے تو وہ طوفان بن کر ڈٹ جاتے ہیں، پتھر بن کر روکیں تو سیلاب بن کر ان کو بہا کر لے جاتے ہیں، پہاڑ آ جائے تو آسمانی بجلی بن کر ان کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں یا پھر زلزلوں سے ہلا ہلا کر گرا دیتے ہیں، آگ روکے تو بارشوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ بن کر ڈٹ جاتے ہیں اور اگر سمندر کا سکوت و گہرائی روکے تو سمندروں کی تہہ میں پایا جانے والا گوہر نایاب بن کر چمکتے نظر آتے ہیں، مگر کسی بھی مقام پر نہ رکنے کا نام لیتے ہیں اور نہ ہی تھکاوٹ و بار اور مایوسی کا بلکہ برق رفتاری سے آگے بڑھ کر غلامی کی زنجیروں کے ایسے ٹکڑے کر دیتے ہیں کہ ان ٹکڑوں کی آواز ظالم حکمرانوں کے کانوں تک اس قدر شدید ہو کر پہنچتی ہے کہ ان کے کانوں کی قوت برداشت سے باہر ہو کہ اس کا سارا ضبط خون بن کر منہ، ناک و کان سے ایسا نکلتا ہے کہ کوئی روکنے والا اس کو روک نہیں سکتا بلکہ ہر پل اس کو اسکی ظلمت کا احساس دلاتے ہیں، اور یہ یہی وہ پر جوش ولولہ خیز لوگ ہوتے ہیں جن کو دنیا کی کوئی لالچ نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ دنیا کی زندگی کو مقدم رکھتے ہیں بلکہ وہ پورے ہوش و حواس اور جذبے کے ساتھ کسی بھی بڑے سے بڑے معرکے کو سر کرنے کے لیئے اس طرح مگن ہوتے ہیں کہ مضبوط سے مضبوط درخت کی جڑوں کو بھی اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت ان کے ہاتھ لگ جاتی ہے کیونکہ وہ یہ راز جان جاتے ہیں مضبوط سے مضبوط جڑوں پر وار کرو گے تو وہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔